مے نوش ہوں ہے کتنے قرینے کی آرزو
میخانۂ نبی سے ہے پینے کی آرزو
اس عاشق رسول کی نسلیں مہک اٹھیں
تھی جس کے دل میں ان کے پسینے کی آرزو
جب سے رسول پاک نے ہیں رکھ دئیے قدم
جنت بھی کر رہی ہے مدینے کی آرزو
کافی ہے مرے دل کے لئے عشق مصطفیٰ
کیا پوچھتے ہو کیسے ہے جینے کی آرزو
آنکھوں کے سامنے ہے سمندر گناہ کا
رکھتا ہوں پنجتن کے سفینے کی آرزو
اک سمت میرا ذہن ہے اک سمت میرا دل
مکے کی ہے تلاش مدینے کی آرزو
یوں دل کو عشق سرور عالم کی ہے طلب
جیسے کرے انگوٹھی نگینے کی آرزو
شاید کیا ہے یاد دیار رسول نے
بے چین کر رہی ہے مدینے کی آرزو
بو جہل چاہتا تھا نہ ہو دین کا فروغ
پوری نہ ہوسکی یہ کمینے کی آرزو
قطب المدار طیبہ سے جولے کے آئے ہیں
محضر ہے مجھ کو ایسے دفینے کی آرزو