بھروسہ پل کا نہیں یہ گھڑی ملے نہ ملے
چلو مدینے یہ موقع کبھی ملے نہ ملے
تو جذب شوق کو اپنا بنا رفیق سفر
سفر طویل ہے ساتھی کوئی ملے نہ ملے
سر نیاز ہر اک گام پر لٹا سجدے
تجھے مدینے کی پھر یہ گلی ملے نہ ملے
در نبی پہ حضوری کے واسطے مجھ کو
جنون عشق ہے کافی کوئی ملے نہ ملے
حضور جس میں ہوں بالیں پر جلوہ گر مالک
ملے وہ موت مجھے زندگی ملے نہ ملے
اسے تو صحن حرم میں سلام کرتا چل
دیار ہوش میں دیوانگی ملے نہ ملے
نہال کیوں نہ ہو دید جمال خضری سے
کہ دل کو پھر کبھی ایسی خوشی ملے نہ ملے
سنا دے جھوم کے اشعار نعت اے محضر
کہ پھر فضائے دیار نبی ملے نہ ملے