کوئی راہی جو مدینے کی طرف جاتا ہے
ہوک سی اٹھتی ہے اور دل مرا بھر آتا ہے
ہجر طیبہ میں گزر جاتی ہیں یوں بھی راتیں
دل کو سمجھاتا ہوں میں دل مجھے سمجھاتا ہے
حشر میں سب کی نگاہیں ہیں نکو کاروں پر
دیکھئے کون بروں کو یہاں اپناتا ہے
اب تو آجا ئیے آقا کہ چراغ ہستی
نا امیدی کی ہواؤں سے بجھا جاتا ہے
دیکھئے آقا یہ جاتا ہے جو سوئے دوزخ
ہے گنہگار مگر آپ کا کہلاتا ہے
ناز کر اپنے مقدر پہ زمین طیبہ
تیرے ہر ذرے سے خورشید بھی شرماتا ہے
جانے کس منزل الفت میں ہے دل میرا ادیب”
نام لیتا ہوں نبی کا تو سکوں پاتا ہے