مقصد فطرت نور مجسم آئے جہاں میں سرور عالم
بن کے حریم قدس کا محرم آئے جہاں میں سرور عالم
دور ہوا باطل کا اندھیرا پھیلا وہ پھیلا حق کا اجالا
چم کا وہ چمکا نیر اعظم آئے جہاں میں سرور عالم
چل چل کے مخمور ہوائیں ہنس ہنس کے مسرور فضائیں
دیتی ہیں آواز یہ پیہم آئے جہاں میں سرور عالم
جہل کے تن میں روح جو پھڑ کی بغض و حسد کی چھاتی دھڑکی
جور و جفا کا گھٹنے لگا دم آئے جہاں میں سرور عالم
اٹّھے رخ عرفان سے پردے رقص میں آئے دین کے جلوے
کفر کی محفل ہو گئی برہم آئے جہاں میں سرور عالم
ناچو خوشی میں اٹھ کے غریبو! گاؤ ہنسو اللہ کے پیارو
کرتے ہو کیوں تقدیر کا ماتم آئے جہاں میں سرور عالم
رحمت حق کے پیکر خاتم لائے ہیں تسکین کا مرہم
درد کے مارو! اب نہ کرو غم آئے جہاں میں سرور عالم
جب ہوئی دنیا جہل کی خوگر جب ہوئے گم اخلاق کے جوہر
جب ہوئی نبض ہستی مدھم آئے جہاں میں سرور عالم
آج کے دن یہ رونا کیسا اشکوں سے منھ دھونا کیسا
ہوش میں آ اے دیدۂ پر غم آئے جہاں میں سرورِ عالم
جاگی ادیب ” انسان کی قسمت خلق مجسم پیکر رحمت
بن کے وقار حضرت آدم آئے جہاں میں سرور عالم