تری ذات سے منور یہ فلک ہے یہ زمیں ہے
تو ہی شاہکار قدرت تو ہی نور اولیں ہے
تو کبھی ہے لا مکاں میں کبھی بزم بیکساں میں
کبھی عرشِ حق ہے مسند کبھی بوریہ نشیں ہے
ترے نور نے مٹائے رہ وہم کے اندھیرے
ترے نور سے ہی روشن مری منزل یقیں ہے
رخ پاک کی تجلی ہے مکان و لا مکاں میں
کیئے دو جہاں معطر تری زلف عنبریں ہے
یہ کرم کی انتہا ہے کہ اماں عدو کو بخشی
تری ہر ادا نرالی ترا ہر عمل حسیں ہے
سر حشر عاصیوں کا تو ہی آسرا ہے ورنہ
وہاں کام آنے والا کوئی دوسرا نہیں ہے
دم نزع کی کشاکش کریں آپ آکے آساں
یہی انتظار آقا مجھے وقت واپسیں ہے
جو لحد میں آئیں گے وہ تو ادیب ” میں کہوں گا
یہ وہی ہیں جن کی الفت مری روح میں مکیں ہے