مدینہ کی جانب گھٹائیں رواں ہیں
کہاں ہیں مری آرزوئیں کہاں ہیں
فرشتوں میں ہلچل ہے معراج کی شب
حضور آنے والے سر لامکاں ہیں
کتاب حیات دو عالم کو دیکھا
محمد ہی عنوان ہر داستاں ہیں
سجائی تو ہے بزم ذکرِ رسالت
نہ دیکھیں جو وہ محنتیں رائیگاں ہیں
انہیں کے تو سر پر ہے تاج شفاعت
وہی نازشِ جملہ پیغمبراں ہیں
کوئی انتہائے نوازش تو دیکھے
خدا میزباں ہے نبی میہماں ہیں
وہی تو بنے باعث وحئ اقراء
وہی تو کلام خدا کی زباں ہیں
بہت سخت ہے منزل درک احمد
کہ خاموش صدیق سے رتبہ داں ہیں
یہی کہہ کے خضرا نے آغوش کھولی
عمر پر یہ فرقت کے لمحے گراں ہیں
ہیں دو نور عثمان نے جب سے پائے
زمیں کہہ رہی ہے کہ ہم آسماں ہیں
گئے علم کے شہر میں ہم تو دیکھا
کہ ہر جا علی کے قدم کے نشاں ہیں
” ادیب” ان کو سمجھو نہ تم میری آنکھیں
کھلی عشق سرکار کی کھڑکیاں ہیں