نہ ہٹاؤ مجھے بنیاد کا پتھر میں ہوں
مجھ کو پہچانوں عمارت کا مقدر میں ہوں
ایک ایوان حسیں اب بھی مرے ذہن میں ہے
اور دنیا یہ سمجھتی ہے بے گھر میں ہوں
اپنی منزل سے بغاوت نہیں اچھی ہوتی
غم کے دریاؤ! نہ بھولو کہ سمندر میں ہوں
میں ہوں ایک خار محافظ ہوں مگر پھولوں کا
میں نے کب دعوی کیا ہے کہ گل تر میں ہوں
بے خطا ترک محبت کی سزائیں سہہ کر
جو تمہیں یاد کیا کرتا ہے اکثر میں ہوں
کسی رہرونے نہ پایا حد منزل کا سراغ
اور اس پر بھی یہ دعوی ہے کہ رہبر میں ہوں
Ghazal Rahbar Makanpuri “Na Hatao Mujhe Bunyad Ka Patthar Main Hoon”

