فریاد جو دل سے کی جائے مملو بہ اثر ہو جاتی ہے
سینے میں جو ہوتی ہے دھڑکن طیبہ میں خبر ہو جاتی ہے
دنیا کی نگاہیں دیکھتی ہیں تب شکل محمد میں اس کو
تخئیل حسین قدرت جب ہمشکل بشر ہو جاتی ہے
اللہ رے کیف عشق نبی دیوانے کو یہ بھی یاد نہیں
کس وقت ہیں کھلتے گیسوئے شب کس وقت سحر ہو جاتی ہے
اے رحمت عالم کیا شئے ہے واللہ تمہاری شان کرم
ہر چند نہیں آتی ہے نظر محسوس مگر ہو جاتی ہے
ہے ارض و فلک کی ہستی کیا انسان و ملک کی گنتی کیا
سرکار جدھر ہو جاتے ہیں مخلوق ادھر ہو جاتی ہے
ملجاتا ہے جس کو قسمت سے تھوڑا سا بھی درد عشق نبی
پھر ہجر کی راتیں کیا شئے ہیں اک عمر بسر ہو جاتی ہے
لیتا ہے بنا کندن دل کو جو آتش عشق احمد سے
واللہ ادیب ” ایسے دل پر خالق کی نظر ہو جاتی ہے