لہو میں بوئے شرافت مرے حضور کی ہے
مری حیات امانت مرے حضور کی ہے
ہر امتحاں سے گذر جائے گا بہ آسانی
نصیب جس کو حمایت مرے حضور کی ہے
کسے ملا ہے مقام شفاعت کبری
ہر اک نبی کو ضرورت مرے حضور کی ہے
مجھے بہشت میں جانے سے کون روکے گا
حضور میرے ہیں جنت مرے حضور کی ہے
تمھارا مرتبہ اصحاب بدر کیا کہنا
تمھارے حق میں بشارت مرے حضور کی ہے
کلیم و نوح و سلیماں ہوں یا ذبیح و خلیل
یہ مقتدی ہیں امامت مرے حضور کی ہے
علی و بوذر و سلماں غنی عمر صدیق
حسین کتنی جماعت مرے حضور کی ہے
کسی بھی موڑ پہ گمراہ ہو نہیں سکتا
جسے نصیب قیادت مرے حضور کی ہے
الجھ نہ ان کے غلاموں سے سختئ حالات
بہت ہی نرم طبیعت مرے حضور کی ہے
وہی تو باعث تخلیق ہر دو عالم ہیں
ہر ایک شئے پہ حکومت مرے حضور کی ہے
ادب سے آتے جہاں پر ہیں قدسیان فلک
وہ بزم عید ولادت مرے حضور کی ہے
تری جناب میں یہ التجا ہے عالم غیب
وہ علم دے جو وراثت مرے حضور کی ہے
عجب نہیں ہے کہ پھر جائیں تیرے دن بھی ادیب”
کرم غریبوں پہ عادت مرے حضور کی ہے