فغان عشق نبی بے اثر نہیں ہوتی
اذاں بلال نہ دیں تو سحر نہیں ہوتی
مرے حضور کی شانِ کرم کا کیا کہنا
وہ بھیک دیتے ہیں لیکن خبر نہیں ہوتی
یہ اپنے نور کا مرکز تلاش کرتے ہیں
فضول گردش شمس و قمر نہیں ہوتی
زمانے بھر میں مدینے کی وادیوں کے سوا
کہیں تشفئی ذوق نظر نہیں ہوتی
سنیں گے مدح نبی ہر زباں سے تاب ابد
یہ وہ کہانی ہے جو مختصر نہیں ہوتی
لب حضور سے نکلی ہوئی جو بات نہ ہو
زمانہ لاکھ کہے معتبر نہیں ہوتی
کرم حضور کا جب تک کہ رہبری نہ کرے
کوئی بھی منزلِ دشوار سر نہیں ہوتی
بتارہی ہے ابو جہل کی یہ بے بصری
تجلیوں کی امیں ہر نظر نہیں ہوتی
گزر رہا ہے ہر اک لمحہ حادثے کی طرح
حضور ہند میں اب تو بسر نہیں ہوتی
وہ دشمنان رسالت کی بزم ہوتی ہے
جہاں پہ عظمت خیر البشر نہیں ہوتی
ادیب ” یہ بھی کمالِ ادب شناسی ہے
لہو لہو ہے جگر آنکھ تر نہیں ہوتی
لہو لہو ہے جگر آنکھ تر نہیں ہوتی