محنت، استقامت اور جذبے کی روشن علامت سید انظر ہاشمی

anzar hashmi

ڈاکٹر سید انظر ہاشمی: علمی و فکری دنیا کا روشن چراغ
پیدائش: 1994ء
آبائی وطن: موہنی مہوا گاچھی، ضلع سیتامڑھی، بہار (ہند)
مقامِ تعلیم: بھارت و انڈونیشیا

مختصر تعارف

ڈاکٹر سید انظر ہاشمی صاحب عصرِ حاضر کے ایک ممتاز محقق، ادیب، فاضل، اور ہیں، جنہوں نے علم و تحقیق کے میدان میں نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اپنی علمی بصیرت کا لوہا منوایا ہے۔
آپ کی ولادت 1994ء میں ریاست بہار کے ایک علمی و روحانی گاؤں موہنی مہوا گاچھی میں ہوئی، جو ضلع سیتامڑھی میں واقع ہے۔ ابتدائی تعلیم اپنے گھر اور بعد ازاں اتر پردیش کے مختلف معیاری دینی مدارس میں حاصل کی۔ علم کی تشنگی نے آپ کو اعلیٰ تعلیم کی جانب مائل کیا، اور اسی لگن کے ساتھ آپ نے جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی سے اسلامک اسٹڈیز میں بی۔ اے اور ایم۔ اے کی اسناد حاصل کیں۔ اسی جامعہ سے آپ نے اردو زبان و ادب میں بھی ایم۔ اے مکمل کیا۔
اعلیٰ تعلیم کے سفر میں آپ نے اسلامک اسٹڈیز میں UGC-NET کا امتحان کامیابی سے پاس کیا، جو آپ کی علمی قابلیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اس کے بعد آپ نے اپنی علمی پرواز کو سرحدوں سے باہر لے جاتے ہوئے، انڈونیشیا کی معروف و بین الاقوامی شہرت یافتہ اسلامک یونیورسٹی آف سالاتیگا سے پی ایچ ڈی (ڈاکٹریٹ) کی ڈگری حاصل کی۔ آپ کی تحقیق کا میدان عموماً اسلامی فکر، صوفی روایت، اور عصری مسائل کے گرد گھومتا ہے۔

ادبی و علمی خدمات

ڈاکٹر انظر ہاشمی کے علمی مضامین اور فکری تحریریں ملک و بیرونِ ملک کے معیاری علمی و ادبی رسائل و جرائد کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ وہ متعدد قومی و بین الاقوامی سیمینارز میں شرکت کر چکے ہیں، اور ان کا تحقیقی کام علمی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

ڈاکٹر انظر ہاشمی ایک ایسے خوش نصیب عالم و فاضل ہیں جنہوں نے دین اور دنیا، مشرق و مغرب، قدیم و جدید کے سنگم پر کھڑے ہو کر علم و فکر کے چراغ روشن کیے ہیں۔ ان کی شخصیت علم، تواضع، تحقیق، ادب، اور اخلاص کا حسین امتزاج ہے۔

یقیناً! ذیل میں ڈاکٹر سید انظر ہاشمی کی علمی محنت، تحقیقی جذبے اور فکری لگن پر ایک جامع، پُرتاثیر اور ادبی انداز میں تحریر پیش کی جا رہی ہے، جو ویب سائٹ یا کسی اداریے میں شامل کی جا سکتی ہے:

محنت و جذبے کا روشن مینار: ڈاکٹر سید انظر ہاشمی
کامیابی ہمیشہ اُنہی کے قدم چومتی ہے جو سچائی، لگن، اور صبر و استقلال کے ساتھ مسلسل محنت کرتے ہیں۔ ڈاکٹر سید انظر ہاشمی بھی انہی باکمال شخصیات میں سے ایک ہیں جنہوں نے نہ صرف تعلیم کے راستے کو اپنا مقصد بنایا بلکہ اپنی عمرِ عزیز کا بیش تر حصہ علم و تحقیق کی خدمت میں صرف کر دیا۔
ایک چھوٹے سے دیہی ماحول سے نکل کر بین الاقوامی سطح تک پہنچنا کسی معمولی ہمت و حوصلے کا کام نہیں ہوتا۔ انظر ہاشمی صاحب نے محدود وسائل، سادہ زندگی، اور علمی سفر کے کٹھن راستوں کو نہ صرف قبول کیا، بلکہ ان راستوں پر چلتے ہوئے بلند حوصلوں اور ثابت قدمی سے آگے بڑھتے چلے گئے۔
ان کی محنت کی سب سے بڑی دلیل ان کی دوہری ماسٹر ڈگریاں، NET کی کامیابی، اور بالآخر انڈونیشیا کی بین الاقوامی جامعہ سے حاصل کردہ پی ایچ ڈی کی ڈگری ہے۔ یہ سب کچھ صرف رسمی تعلیم نہیں، بلکہ اُس داخلی جذبے کا اظہار ہے جو علم کو عبادت، تحقیق کو خدمتِ دین، اور قلم کو امانت سمجھتا ہے۔
انظر ہاشمی کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ اگر ارادے مضبوط ہوں، نیت پاک ہو، اور محنت خلوص سے کی جائے، تو دنیا کی کوئی رکاوٹ منزل کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتی۔

اُن کا جذبہ ہمیں کیا سکھاتا ہے؟
🔹 کبھی کسی چھوٹے گاؤں یا پس منظر کو رکاوٹ نہ سمجھیں
🔹 تعلیم کو زندگی کا نصب العین بنائیں، محض روزگار کا ذریعہ نہیں
🔹 تحقیق کا راستہ مشکل ضرور ہوتا ہے، لیکن تاریخ میں زندہ یہی لوگ رہتے ہیں
🔹 خود سے آگے بڑھنے کے بعد دوسروں کی رہنمائی بھی مقصدِ حیات ہونا چاہیے

ڈاکٹر انظر ہاشمی کی یہی محنت اور جذبہ آئندہ نسلوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ ایسے افراد قوم و ملت کا فخر ہوتے ہیں، جن پر زمانہ ناز کرتا ہے، اور تاریخ ان کے چراغ کو بجھنے نہیں دیتی۔
اگر آپ چاہیں تو اس جذبے پر مبنی کوئی ویڈیو، تصویری اقتباس، یا انسپائریشنل پوسٹ بھی تیار کی جا سکتی ہے۔
کیا آپ کو یہ تحریر کسی مخصوص مقصد کے لیے درکار ہے؟ (جیسے: سوشل میڈیا، ویب پیج، سیمینار بروشر وغیرہ) تاکہ میں اسے اسی انداز میں ڈھال دوں۔

محنت، استقامت اور جذبے کی روشن علامت: ڈاکٹر سید انظر ہاشمی
کچھ لوگ قسمت کے سہارے منزل پر پہنچتے ہیں، اور کچھ وہ ہوتے ہیں جو اپنی محنت سے قسمت کو بھی جھکنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ ڈاکٹر سید انظر ہاشمی انہی باہمت اور باکردار شخصیات میں سے ایک ہیں جنہوں نے علم کے سفر کو عبادت بنایا، تحقیق کو نصب العین، اور تعلیم کو خدمتِ انسانیت کا ذریعہ۔

ایک گمنام گاؤں موہنی مہوا گاچھی سے نکل کر بین الاقوامی اسلامی جامعات تک کا سفر صرف تعلیمی نہیں، بلکہ حوصلے، قربانی، اور جذبے کی عظیم داستان ہے۔ ان کا ابتدائی تعلیمی ماحول اگرچہ وسائل سے محروم تھا، مگر ان کا دل علم کی روشنی سے بھرپور، اور ان کا ذہن مستقبل کے عظیم خوابوں سے روشن تھا۔

انھوں نے دینی مدارس سے تعلیم کی بنیاد رکھ کر، جامعہ ملیہ اسلامیہ جیسی بڑی دانشگاہ سے اسلامک اسٹڈیز اور اردو ادب میں دو دو ماسٹر ڈگریاں حاصل کیں۔ پھر NET جیسے مشکل امتحان میں کامیابی حاصل کی۔ یہ سب کچھ اس وقت ممکن ہوتا ہے جب انسان صرف ڈگری حاصل نہ کرے، بلکہ علم کو اپنے کردار، اپنے قلم اور اپنی سوچ میں جذب کر لے۔

مگر ان کا سفر یہاں ختم نہیں ہوا۔ انھوں نے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، سالاتیگا (انڈونیشیا) سے پی ایچ ڈی مکمل کر کے یہ ثابت کر دیا کہ علم کی سرحدیں قوموں سے نہیں، ذہنوں سے متعین ہوتی ہیں۔ یہ کامیابی محض ایک تعلیمی سند نہیں، بلکہ وہ فکری عزم ہے جو ان کے اندر مسلسل انگڑائی لیتا رہا، جس نے انہیں تحقیق کی دنیا میں معتبر مقام دلایا۔

تحقیق سے عشق اور علم سے وفا
ڈاکٹر انظر ہاشمی کی شخصیت علم، حلم، ادب، تحقیق، اور انکساری کا ایک حسین امتزاج ہے۔ ان کے مضامین، مقالات، اور علمی تحریریں محض معلومات کا مجموعہ نہیں، بلکہ ایک فکری جہت، روحانی گہرائی اور معاشرتی شعور کی ترجمان ہیں۔
ان کی تحریروں میں جہاں دین کا وقار ہوتا ہے، وہیں جدید دنیا کے سوالات کے مدلل جوابات بھی۔ وہ نہ صرف قدیم اسلامی روایت کے وفادار ہیں بلکہ عصرِ حاضر کے ذہنی چیلنجز کو بھی سمجھنے اور اس کا علمی جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

ان کی محنت اور جذبے سے ہمیں کیا سیکھنا چاہیے؟
وسائل کی کمی، اگر ارادہ قوی ہو تو رکاوٹ نہیں بنتی۔
علم صرف کتابوں کا مجموعہ نہیں بلکہ کردار کی تعمیر کا ذریعہ ہے۔
تحقیق وہ عمل ہے جس میں انسان خود کو تلاش کرتا ہے، اور دوسروں کے لیے روشنی بن جاتا ہے۔
عالمِ اسلام کے نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے فکری وجود کو عالمی سطح پر منوائیں، جیسے ڈاکٹر ہاشمی نے کیا۔

ڈاکٹر سید انظر ہاشمی کی زندگی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ علم کے سفر میں نہ کوئی منزل آخری ہوتی ہے، نہ کوئی مشکل حتمی۔ وہ ہر اس نوجوان کے لیے امید کا چراغ ہیں جو دیہی پس منظر، مالی تنگی، یا تعلیمی رکاوٹوں کو اپنی ترقی کی دیوار سمجھتا ہے۔

ان کی محنت، ان کی خاموش لگن، ان کی فکری چمک، اور ان کا تحقیقی جذبہ، آنے والی نسلوں کے لیے ایک مثالی راہ ہے۔ یقیناً ایسے افراد قوم و ملت کا سرمایہ، علم و ادب کا وقار، اور وقت کے تقاضوں کا معتبر جواب ہوتے ہیں۔

از: غلام فرید حیدری مداری (مداری_میڈیا)
anzar hashmi

Tagged:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *