السلام علیکم ورحمت الله وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ میں که زید متوفی کے دادا ایک بھائی،ماں ایک بہن ایک لڑکا دو لڑکی دو بیویاں ہے، بچوں کی ماں کا انتقال ہوگیا ہے،جو بیوی حیات ہے، اس کے کوئی اولاد نہیں، سو زید کا ترکه کس طرح تقسیم هو گا مہر بانی فرمائیں، جواب عنایت فرمائیں۔
عبدالمعید
موضع جاندلا ضلع اوجین ایم پی
الجواب
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ تعالیٰ و برکاتہ
صورت مستفسرہ میں مرحوم کا ترکہ اس طرح تقسیم ہوگا کہ پہلے زید متوفی کے حقوق مثلا تجہیز و تکفین کے اخراجات ادا کیے جائیں،اس کے بعد اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہو تو قرض کل مال سے ادا کیا جاۓ،اور اگر مرحوم زید نے کوئی وصیت کی ہو تو باقی مال کے تہائی حصہ میں سے اسے نافذ کیا جاۓ۔
اس کے بعد باقی ماندہ ترکہ منقولہ و غیر منقولہ کو 24/حصوں میں تقسیم کرکے 4/حصے زید مرحوم کے دادا کو،4/ حصے زید کی ماں کو،3 /حصے زید کی بیوی کو، ساڑھے چھ حصے زید کے بیٹے کو اور ساڑھے چھ حصے دونوں بیٹیوں کو ملیں گے۔
زید مرحوم کا بھائی اور بہن ترکے سے ساقط ہو جائیں گے،لڑکے،پوتے(نیچے تک)اور باپ دادا(اوپر تک)کی موجودگی میں ان دونوں کو ترکہ میں سے کچھ نہیں ملتا۔
کتاب الفرائض میں ہےو يسقط الأخ أو الأخت الشقيقة فى ثلاثة مواضع مع الإبن و ابن الإبن و إن سفل و مع الأب
[کتاب الفرائض،ص:30،باب الحجب و تفسیرہ،دار الکتب العلمیہ بیروت]
واللہ تعالیٰ اعلم۔
کتبه
احقر محمد اکبر خان مداری عفی عنہ
سابق مدرس مدرسہ عربیہ مدار العلوم گووندہ پور بریلی و نزیل حال حجاز
21/رجب المرجب 1443ھ
الجواب صحیح
خوشنود خان مداری عفی عنہ
صدر المدرسین مدرسۂ مذکورہ و ناظم اعلیٰ دار الافتا مداریہ
الجواب صحیح
محمد آصف خان قمر مداری عفی عنہ
مدرس مدرسہ عربیہ مدار العلوم گووندہ پور بریلی
ماخوذ : فتاوی مداریہ ، جلد اول ، صفحہ ٥٨٥






