madaarimedia

ایمان ‏ابو ‏طالب

نحمدہ ونصلی ونسلم علی حبیبہ اکریم امابعد

اعوذباللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مااٰتکم الرسول فخذوہ ومانھٰکم عنہ فانتھوا

یعنی رسول پاک جودیں اسےلےلواورجس بات سےمنع کردیں اس سےرک جاؤ

بعدخطبۂ مبارکہ مقدمتہ الکتاب کاآغازکرتاہوں حضرت پیرنصیرگولڑوی کےان اشعارسے

میں کہونگا کہ ہےمحروم بڑی نعمت سے

جوکوئی دست کشِ خوانِ ابوطالب ھے

الفت پنجتن پاک نےبخشا یہ شرف

آج کل دل مِرامہمان ابوطالب ھے

بعدتحقیق احادیث وروایات نصیر

میرادل قائل ایمان ابوطالب ھے

ناظرین محترم

جس طرح فخرملت پاسبان اہلسنت مقبول بارگاہ پاک عترت حضرت علامہ ومولانا صوفی پیر فخرعالم شیداکمالی صاحب قبلہ کی نامی گرامی بھاری بھرکم شخصیت ہرطبقےمیں کافی مشہورومقبول ھے اسی طرح انکی تصانیف بھی ہرطبقےکیلئےکسی عظیم سوغات سےکم نہیں ہوتی ہیں

میں ذاتی طورپرجناب مولف کتاب ھذاکوبہت قریب سےجانتاہوں اوراسکی روشنی میں لکھ رہاہوں کہ انھیں جیسی علمی ومذھبی شخصیات علمائےحق کی انجمن میں مسند عزت وعظمت کی زینت بنتےہیں انھیں کےمثل حق شعارعلمائےدین اس زمین کی زینت اورملت کاوقاروسرمایہ ہوتےہیں حضرت بابرکت علامہ پیرصوفی فخرعالم شیداکمالی کی یہ تصنیف لطیف المسمیٰ بہ خواجۂ بطحاءحضرت ابوطالب کودیکھکر دل کوبڑی راحت میسرہوئی ویسےتو علامہ کمالی کی اکثرتصنیفات اہلبیت پاک کےہی پاک تذکروں پرمشتمل ہیں

اورسب کی سب عوام وخواص کےدرمیان کافی مقبول ہیں

لیکن حضرت علامہ کی یہ تصنیف بہت ہی اہم اورخاص الخاص ھے کیونکہ یہ ایک ایسےموضوع پرلکھی گئی ھے جس پرخامہ فرسائی ہرکس وناکس کےبس کی بات نہیں ھے اس مسئلےکواعتدال ووسطیت کیساتھ نبھانےکیلئے بہت گہرےمطالعہ کیساتھ ساتھ کامل طورپرمومنانہ فہم وفراست درکارھے

میں نےحضرت علامہ کی اس کتاب کو بہت دلچسپی کیساتھ ملاحظہ کیاھے اسلئےمکمل یقین واعتمادکیساتھ لکھ رہاہوں کہ یہ مایہ ناز تصنیف بیشمار اہل علم کےافکارونظریات کاقبلہ تبدیل کردیگی کیونکہ حضرت مصنف نےاپنےموقف کودلائل قاہرہ وبراہین ساطعہ سےمرصع کرنےکےساتھ ساتھ بڑےسلیقہ وشعورکیساتھ اپنی بات کو پیش فرمائی ھے اوربڑے مزےکی بات یہ بھی ہےکہ یہ کتاب جس طرح حضرت ابوطالب کےایمان واسلام پر دلائل قاہرہ کا مجموعہ ھےاسی طرح اس بزرگوارکی سیرت وسوانح کابھی بیش بہاحصہ اس کتاب میں شامل ہوگیاھے

حضرت موصوف کااس زمانےمیں اس موضوع پرقلم اٹھانابہت ضروری تھا

کیونکہ اس مسئلےکےبابت اس دورمیں جوجاہلانہ اورمتعصبانہ رویہ اختیارکیاگیاھے وہ اس بات کامتقاضی تھاکہ اس عنوان پرپوری علمی دیانت داری کیساتھ کام کیاجائے ناظرین کتاب کےاندر بچشم خودملاحظہ کرینگے کہ مصنف موصوف نے اپنےموضوع کوبہت ہی خوبصورتی اوردیانتداری کیساتھ نبھایاھے

ناظرین گرامی قدر ! آپ مکمل وثوق کیساتھ جان لیں کہ

قرآنی آیات کےمفاہیم و احادیث کریمہ اوراقوال اکابرسےسرکاربطحاءسیدناحضرت ابوطالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کامومن کامل ہوناروزروشن کی مانندعیاں ھے

قرآن عظیم کی کسی صریح آیت سےانکاعدم ایمان ثابت نہیں ہوتا نیزاگربنظرغائردیکھاجائےتوانکےعدم ایمان کی اکثرروایات قرآن عظیم سےمتعارض ومتصادم نظرآتی ہیں لھذایسی صورت میں ہروہ روایت غیردرست وناقابل قبول ہوگی جوکتاب اللہ سےمتعارض ومتصادم ہو

قرآن پاک سے

حضرت ابوطالب کےمومن ہونےکی دلیل

قال اللہ عزوجل ماکنت تدری ماالکتاب والایمان یعنی” نہ توآپ کتاب کوجانتےہیں اورنہ ہی آپکوایمان کاپتہ تھا

(شوریٰ آیت نمبر۵۲ )

حضرت امام قسطلانی اس آیت کریمہ کےتحت فرماتےہیں کہ امام مادردی امام واحدی اورامام قشیری رحمتہ اللہ علیہم نے اس آیت کےضمن میں روایت بیان کی ھےکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کایہ ارشاد کہ آپکواس سےپہلےکتاب اورایمان کی کچھ خبرنہ تھی حذف مضاف کےباب سےہے

یعنی ایمان کاپتہ نہیں تھا تویہ بات حضرت ابوطالب اورحضرت عباس اوردوسرےصحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کےمتعلق ہےکہ محبوب ! آپ کےبتانےسےپہلےیہ نہ توکتاب کوجانتےتھےاورنہ ہی ایمان کی کچھ خبرتھی متن ملاحظہ ہو

واماقولہ تعالیٰ “ماکنت تدری ماالکتاب والایمان

حکاہ المادردی والواحدی والقشیری وقیل انہ من باب حذف المضاف ای ماکنت تدری اہل الایمان ای من الذی یومن ابوطالب اوالعباس اوغیرھما

(مواہب الدنیہ للامام احمدبن محمدبن ابی بکرالخطیب قسطلانی جلددوم ص۸۹ مطبوعہ بیروت )

امام زرقانی علیہ الرحمہ مذکورہ بالاعبارت کی تشریح فرماتےہوئےلکھتےہیں کہ

انہ من باب حذف المضاف أی ماکنت تدری اھل الایمان من الذی یومن ابوطالب (عبدمناف) اوالعباس اوغیرھمافلماینافی انہ مومن باللہ وصفاتہ وقدیدل لہ بقیتہ آیتہ ولٰکن جعلناہ نورًانہدی بہ من نشآءمن عبادنا

یعنی یہ آیت حذف مضاف کےباب میں سےہے اوروہ اہل ایمان لوگ جوپہلےایمان کونہ جانتےتھے اورایمان لائےوہ ابوطالب (عبدمناف‌‍‍ یاعباس اوردوسرےلوگ ہیں اوران لوگوں کااللہ عزوجل کی ذات وصفات پر ایمان لاناآیت مذکورہ کےمنافی نہیں بلکہ یہ توآیت کریمہ کےآئندہ آنےوالےبقیہ اس حصہ پردلالت کرتی ہےکہ “لیکن ہم نےاس قرآن کونوربنایا جس کےذریعہ سے ہم اپنےبندوں میں سےجس کوچاہیں ھدایت کرتےہیں “

ناظرین پرواضح ہوناچاہئےکہ مذکورہ دلیل ثبوت ایمان حضرت ابوطالب کےباب میں اس درجہ ٹھوس اورمضبوط ہےکہ جسےہزاروں تاویلوں کےباوجود نہ توالجھایاجاسکتاھے اورنہ ہی مستردکیاجاسکتاھے ـ ـ ـ

لھذا اب ہم ذیل میں اولاً انکےمومن ہونےکی کچھ روایات نقل کررہےہیں تاکہ انکی روشنی میں لوگوں کو اس عالی قدرکامقام ومرتبہ اورعلوِشان کاعلم ہوسکے

روایات ملاحظہ ہوں

Read more

حضرت سیدنا ابوطالب رضی اللہ عنہ

madaarimedia.com
ولادت محسن اسلام خواجئہ بطحہ حضرت سیدنا ابوطالب رضی اللہ عنہ کے موقع پر
جس نے اسلام کو پالا وہی کافر ٹھہرا?
محسن اسلام محافظ نبوت ناصر رسالت سیدالامت جدالحسنین وسلیتنا فی الدارین سرکار وفا خواجئہ بطحا خسر سیدہ طیبہ زہرا تفسیر آیئہ فآویٰ متولئ کعبہ نذر محبوب خدا
حضرت سیدنا ابوطالب رضی اللہ عنہ کی آمد آمد 29شوال المکرم 534عیسوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت سے 35سال پہلے شہر مکہ میں قبیلئہ قریش خاندان بنوہاشم میں رئیس مکہ حضر سیدنا عبدالمطلب کے چمنستان کی بہار بنے
آپ اپنی کنیت (ابوطالب) سے اس قدر معروف ہوئے کہ کنیت نام پر غالب آگئی

والدہء ماجدہ فاطمتہ بنت عمرو بن عائذ قبیلہ بنو مخزوم کی شہزادی تھیں

برادران آپ کے سگے دو بھائی حضرت زبیر اور حضرت عبداللہ تھے

خواہران سگی 5 بہنیں تھیں

آپ کے والد مکرم معظم حضرت سیدناعبدالمطلب کی چھ شادیاں ہوئ تھیں جن میں سے12بیٹے اور6بیٹیاں پیداہوئیں

نکاح حضرت ابوطالب رضی اللہ عنہ کے دو نکاح ہوئے

پہلی زوجہ محترمہ کا اسم با عصمت فاطمتہ بنت اسد رضی اللہ عنھا ہے آپ سابقون الاولون اور مبشرہ باالجنتہ اور حبشہ کی ہجرت میں مولاعلی المرتضی علیہ السلام کے ہمراہ پیدل ہجرت فرمانے والی پہلی خاتون اسلام ہیں جنھیں ان کی عزت و شرافت اور منفرد مقام بزرگی کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ماں فرمایا اور ان کو کفن کیلئے اپنا کرتہ عنایت فرمایا آپ انکی قبر مبارک میں لیٹے

اولاد امجاد

چار بیٹے طالب،عقیل،جعفرطیار،اور مولاعلی رضی اللہ عنھم

شہزادیاں

دوسری زوجہ محترمہ سے تین بیٹیاں ام ہانی،جمانہ،اسماء جنھیں رہط بنت ابوطالب بھی کہا جاتا ہے پیدا ہوئیں

پیشہ

حضور ابوطالب پیشے سے شہر مکہ کے بڑے تاجر وں میں شمار کئے جاتےتھے

کفالت رسالت

حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے وصال کے وقت آپ کی عمر شریف آٹھ سال تھی بس 8سال کی عمر سے کفیل و ناصر ومحافظت فرماتے رہے اور42سال تک حمایت و نصرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں مقدس زندگی کے نقوش تاریخ اسلام کی قرطاس پر سنہرے حروف میں لکھے

Read more

Top Categories