madaarimedia

نبی کے خون کی تاثیر کو سلام کرو

Madaarimedia.com

نبی کے خون کی تاثیر کو سلام کروتبسم لب بے شیر کو سلام کروجو دیکھنا ہو کہ ملتی ہے کس طرح جنتتو حر کی خوبئ تقدیر کو سلام کروامین کار امامت ہیں اے جہاں والوادب سے زینب دلگیر کو سلام کرووہی ادا وہی جلوی زفرق تا بہ قدمنبی کی ہو بہو تصویر کو سلام کرووہ … Read more

مظلوم کربلا مظلوم کربلا

 مظلوم کربلا مظلوم کربلا

ہر قوم کی زبان پہ ہے آج یہ صدا


ہنستے ہوئے دکھوں کا زمانہ گزار کے

اسلام اور عزیز و اقارب کو وار کے

دین نبی کو پھر سے نئی جان دے گیا


مظلوم کربلا مظلوم کربلا


اصغر کو لے کے مانگنے پانی چلے حسین

غیرت سے لب نہ کھول سکے شاہ مشرقین

سرکار کے رہ گئے رخ معصوم سے ردا


مظلوم کربلا مظلوم کربلا


رنگیں لہو سے جس کے ہیں گل لال زار کے

بتلا گیا جو معنی جہاں کو بہار کے

واقف نہ ہو تو ہم یہ بتائیں وہ کون تھا


مظلوم کربلا مظلوم کربلا


آواز حق کو روک نہ پائے ستم شعار

نوک سنا پہ کہہ کے جو تکبیر تین بار

شبیر چپ ہوئے تو زمانہ پکار اٹھا


مظلوم کربلا مظلوم کربلا


اکبر کو اپنے ہاتھوں کیا ہے سپرد خاک

اکبر کو اپنی دیکھا ہے آنکھوں سے سینہ چاک

وہ کون سا ستم ہے جو تجھ پر نہیں ہوا


مظلوم کربلا مظلوم کربلا

جلتی ہوئی ہوا سے صغرا نے یوں کہا

کہنا ادب سے جب ہو گزر سمت کربلا

کیوں آپ ہم کو بھول گئے کیا ہوئی خطا


مظلوم کربلا مظلوم کربلا

پوچھیں گے قبر میں جو نکیرین اے ادیب

بتلا یہاں ہے کس کی حمایت تجھے نصیب

بے خوف و بے ہراس کہوں گا میں برملا

مظلوم کربلا مظلوم کربلا

_______________


کرتے ہیں سب ذکر حسینی پیار سے گھر گھر گلی گلی

 کرتے ہیں سب ذکر حسینی پیار سے گھر گھر گلی گلی

نام یزیدی کی رسوائی آج بھی در در گلی گلی


لے کے علم عباس کا بچے کوچہ کوچہ پھرتے ہیں

فوج یزیدی کہیں نہیں ہے علی کا لشکر گلی گلی


کیوں تو نے محفوظ نہ رکھے ان سب کے قدموں کے نشاں

شہر کوفہ تجھ میں پھری ہے آل پیمبر گلی گلی


نہر فرات ایک بوند بھی پانی جن پیاسوں کو دے نہ سکا

اب ہے اچھلتا نام پہ ان کے جام کوثر گلی گلی


بیعت فاسق سے بہتر ہے سر کٹوا دینا لوگوں

میرا یہ پیغام سنانا طیبہ جا کر گلی گلی


آل نبی کو جیسے پھرایا تو نے در در ابن سعد

ٹھوکر کھلوائے گا تجھ کو تیرا مقدر گلی گلی


ماہ محرم لے کے آیا پیاس کے ماروں کی یادیں

آنکھوں آنکھوں لہراتے ہیں غم کے سمندر گلی گلی


باطل کی قسمت میں فنا ہے حق زندہ رہتا ہے ادیب

مٹ گئے سب مداح یزیدی شہ کے ثناگر گلی گلی

  _______________


یہ اس کی قربانی ہے جو زہرا کا جانی ہے

 یہ اس کی قربانی ہے جو زہرا کا جانی ہے

وہ جس کی مرہون منت کل نوع انسانی ہے


نام یزیدی صدا رہے گا لعنت کا حقدار

سارے جگ میں امر رہے گا شبیری کردار

ذکر حسینی مٹ نہ سکے گا یہ جذبہ روحانی ہے


عون و محمد ہو یا قاسم ہیں یہ شجاعت والے

سینوں گردن اکبر و اصغر ہیں یہ ہمت والے

شیر خدا تیرے کنبے کا ہر بچہ لاثانی ہے


قید غلامی سے انساں کو جس نے کیا آزاد

تو نے کیا برباد اسی کو بتلا ابن زیاد

کرتے ہوئے جبرئیل کو دیکھا جس گھر کی دربانی ہے


گونجی اذان اکبر کی ہے کربل میں آواز

بند ہوئی ہے جس کو سن کر چڑیوں کی پرواز

آج ملک ہیں محو سماعت ایسی خوش الحانی ہے


کرنا تواضع مہمانوں کی ہے ادبی دستور

بھوکے پیاسے ال نبی ال محمد ہیں کب سے مجبور

کوفہ و شام کے رہنے والوں یہ کیسی مہمانی ہے


دنیا کو راحت پہنچانے والے ہیں شبیر

سب کے لیے سامان خوشی کا خود غم کی تصویر

آئینے کی قسمت میں ہی لکھی ہوئی حیرانی ہے


اجڑے خیمے پیاسے بچے اور عابد بیمار

یاد رہے گا بنت زہرا کا وہ ادیب ایثار

جس کو دنیا بھول نہ پائے یہ وہ امر کہانی ہے

  _______________


رن میں علی کا لال کھڑا ہے آج نہ جانے کیا ہوگا

 رن میں علی کا لال کھڑا ہے آج نہ جانے کیا ہوگا

سہتا ستم ننھا سا گلا ہے آج نہ جانے کیا ہوگا

عرش الہی کانپ رہا ہے آج نہ جانے کیا ہوگا


بولی زینب کیسے بھجوں اکبر کو میں رن کی طرف

بھائی یکا یک دل دھڑکا ہے آج نہ جانے کیا ہوگا


رن میں یتیم و بیواؤں کی بن کے محافظ باد حسین

تیغ بکف بنت زہرا ہے آج نہ جانے کیا ہوگا


خون اصغر منھ پہ مل کر صبر و رضا کے پیکر نے

سوئے فلک دکھ سے دیکھا ہے آج نہ جانے کیا ہوگا


نیزے پر شبیر کا سر ہے اہل حرم ہیں ساتھ ادیب

ہر گوشہ سہما سہما ہے آج نہ جانے کیا ہوگا

  _______________


اس وقت کہاں تھا اے بادل

 اس وقت کہاں تھا اے بادل

کیوں بھر نہ دئیے تو نے جل تھل


جب آگ اگلتی تھی یہ زمیں

اور تھا یہ موسم چیں بہ زمیں

پانی کی تھی ایک بوند نہیں

ہر ذرہ تھا ایک جلتی مشعل


اس وقت کہاں تھا اے بادل



اب آیا ہے نالے کرتا

مظلوموں پہ آ ہیں بھرتا

پیاسوں کے قدم پر سر دھرتا

نادم نادم بے کل بےکل


اس وقت کہاں تھا اے بادل


دکھیو‌ں کو رلانے آیا ہے

دکھ اور بڑھانے آیا ہے

سب سوگ منانے آیا ہے

سر پر اوڑھے کالا کمبل


اس وقت کہاں تھا اے بادل


کرتا تھا سوالِ آب پدر

ہاتھوں پہ لاشائے اصغر

اعداء کو دکھانے حال جگر

سرکایا تھا جب شہ نے انچل


اس وقت کہاں تھا اے بادل


عباس کا جب یہ عالم تھا

بازو تھے کٹے مشکیزہ تھا

ایک پیاسی بھتیجی کا چہرہ

پھر جاتا تھا آنکھوں میں ہر پل


اس وقت کہاں تھا اے بادل


تسلیم فرات پہ تھا قبضہ

بے آب تھے سب نیل و دجلہ

تو اڑ کر ہند میں آ جاتا

لے جاتا یہاں سے گنگا جل


اس وقت کہاں تھا اے بادل


اے کاش ادیب کوئی پوچھے

جب ظلم و ستم کے شعلے تھے

مرجھائے تھے باغ زہرا کے

پھل پھول شجر پتے کوپل


اس وقت کہاں تھا اے بادل

  _______________


اے شبیر تیری قربانی اے شبیر تیری قربانی

 اے شبیر تیری قربانی اے شبیر تیری قربانی

صاحب خضرا دیکھ رہا ہے اے شبیر تیری قربانی


تو ہے وہ ساجد جس کا سجدہ کعبے والا دیکھ رہا ہے

اے شبیر تیری قربانی اے شبیر تیری قربانی


ایماں کی ساکن موجوں سے طوفاں اٹھتا دیکھ رہا ہے

سر نیزے پر اونچا کر کے ظالم نیچا دیکھ رہا ہے


اے شبیر تیری قربانی اے شبیر تیری قربانی


رن میں اصغر کے چہرے سے آقا چادر سرکاتے ہیں

فرش زمیں کے چاند کو جھک کر عرش کا تارا دیکھ رہا ہے


اے شبیر تیری قربانی اے شبیر تیری قربانی


شہ نے پکارا ھل من الناصر حر کہتے لبیک چلے

حق کی صدا میں کتنی کشش ہے لشکر اعداء دیکھ رہا ہے


اے شبیر تیری قربانی اے شبیر تیری قربانی


آل نبی پر جورو بدعت اور پھر بھی امید شفاعت

شمر بتا اب روز قیامت کس کا سہارا دیکھ رہا ہے


اے شبیر تیری قربانی اے شبیر تیری قربانی


نار جہنم کی آندھی ہیں اس کا مقدر کل محشر میں

خیموں میں جو آگ لگا کر آج تماشہ دیکھ رہا ہے


اے شبیر تیری قربانی اے شبیر تیری قربانی


گرد ادیب اہل جنت ہیں پشت پہ ہیں زہرا حیدر

جو ہے مگر محروم بصیرت ان کو تنہا دیکھ رہا ہے


اے شبیر تیری قربانی اے شبیر تیری قربانی

  _______________


حاجت آہ نیم شب اور نہ شرط اہلیت

 حاجت آه نیم شب اور نہ شرط اہلیت

چاہے جسے نواز دے تیرا غفور مرحمت


عین کرم تر استم تیرے جمال کی قسم

وجه سرور زندگی تیرا غم مفارقت


میں کہ فقط نیازمند تو کہ ہے ایک بے نیاز

جھک کر تجھے لبھائے کیا میرا سر عبودیت


آیا جو لب پہ تیرا نام تار سے جھن جھنا گئے

تجھ سے رباب قلب کو کوئی تو ہے مناسبت


عقل و شعور سب ہوئے راہ کے پیچ وخم میں گم

آگئی کیا قریب تر منزل درک و معرفت


کاش گداز قلب سے مانگ سکوں میں وہ دعا

جس کے لئے ہے منتظر تیرا در قبولیت


اس کے کرم سے جو ملا منزل عشق میں ادیب”

شرح و بیان میں نہیں آتا وہ کیف کیفیت

  _______________


اے مرے مصطفیٰ تم پہ لاکھوں سلام

 نور بدر الدجی تم پہ لاکھوں سلام

اے مرے مصطفیٰ تم پہ لاکھوں سلام


ہے تمھیں سے تو تخلیق کی ابتداء

بن کے آئے تمھیں خاتم الانبیاء

مالک دوسرا تم پہ لاکھوں سلام


کشتئ نوح کے تم ہی ساحل بنے

تم دعائے خلیلی کے حاصل بنے

محرم کبریا تم پہ لاکھوں سلام


ہو تمھیں تو امام صفِ انبیاء

ہو تمھیں تو سکون و قرار عرش کا

لامکان زیر پا تم پہ لاکھوں سلام


فخر كعبہ تمھیں نور فاراں تمھیں

معنی جملہ آیات قرآں تمھیں

اے وقار حرا تم پہ لاکھوں سلام


گمرہی کو جو راہِ ہدایت بنی

جو ہے اسرارِ طائف کو رحمت بنی

ہے تمھاری دعا تم پہ لاکھوں سلام


یہ سہانا سماں اور یہ نوری سحر

سب ہیں آنکھیں بچھائے سر رہ گزر

ہے سبھی کی صدا تم پہ لاکھوں سلام


شافع عاصیاں اے حبیب خدا

حشر کے دن ادیب” خطا کار کا

ہو تمھیں آسرا تم پہ لاکھوں سلام

  _______________

ہو سلام آپ پہ اے بی بی خدیجہ کے سجن

 آپ کے نام پہ قربان مرا تن من دھن

ہو سلام آپ پہ اے بی بی خدیجہ کے سجن


آپ کی ذات سے آدم کی ہوئی ہے تشکیل

آپ کی مدح میں توریت زبور و انجیل

آپ کے نور کا صدقہ ہے یہ دھرتی یہ گگن


ہو سلام آپ پہ اے بی بی خدیجہ کے سجن


آپ کی ذات سے قائم ہے نظام ہستی

آپ کی ذات سے گردش میں ہے جام ہستی

آپ کی ذات سے کونین کے دل کی دھڑکن


ہو سلام آپ پہ اے بی بی خدیجہ کے سجن


اپنی ہی جلوہ نمائی کیلئے صبح ازل

آپ کے آئنۂ حسن پہ کر کے صیقل

آئینہ گرنے کئے آپ ہی اپنے درشن


ہو سلام آپ پہ اے بی بی خدیجہ کے سجن


ظلمتیں دور ہوئیں نور کی شمعیں چمکیں

یاس کا فور ہوئی آس کی کلیاں چٹکیں

آپ آئے تو مہک اٹھے امیدوں کے چمن


ہو سلام آپ پہ اے بی بی خدیجہ کے سجن


زلف سے کالی گھٹاؤں نے مچلنا سیکھا

در دنداں سے ستاروں نے چمکنا سیکھا

مہر کامل کو ملی ہے رخ عالی کی پھبن


ہو سلام آپ پہ اے بی بی خدیجہ کے سجن


ذات عالی کوئی اعجاز جو دکھلاتی ہے

دست بوجہل سے کلمے کی صدا آتی ہے

موم بنتے ہیں قدم پڑتے ہی سنگ و آہن


ہو سلام آپ پہ اے بی بی خدیجہ کے سجن


کوئی محروم نہ رہ پایا صغیر اور کبیر

اہل اخلاص و وفا ہوں کہ ہوں مکے کے شریر

آپ کے لطف کا ہر ایک پہ برسا ساون


ہو سلام آپ پہ اے بی بی خدیجہ کے سجن


دور دنیا سے ہوئی زعم امارت کی بلا

کوئی مفلس نہ رہا کوئی تو نگر نہ رہا

گھر میں افلاس کے ماروں پہ بھی برسا کنچن


ہو سلام آپ پہ اے بی بی خدیجہ کے سجن


ظلم ڈھانے کیلئے کوئی بھی چھوڑا نہ گیا

تھا ستم کون سا جو آپ پہ توڑا نہ گیا

پھر بھی آئی نہ کبھی آپ کے ماتھے پہ شکن


ہو سلام آپ پہ اے بی بی خدیجہ کے سجن


کاش پوری ہو الہی یہ تمنائے ادیب”

وقت آخر ہو تو ہو گنبد خضری کے قریب

یہی پڑھتا ر ہے جب تک کہ رہے تاب سخن


ہو سلام آپ پہ اے بی بی خدیجہ کے سجن

  _______________