madaarimedia

بر پا بزم پیمبر ہوگی

 بر پا بزم پیمبر ہوگی

تا بہ قیامت گھر گھر ہوگی


عشق نبی کے جام چلیں گے

بھیڑ کنارِ کوثر ہوگی


دیوانوں کو عید ہے مرقد

دید جمال انور ہوگی


آئے وہ دیکھو سرور عالم

اب ہر ایک مہم سر ہوگی


دیکھیں گے سرکار کا جلوہ

بادہ کشی بے ساغر ہوگی


صبح کی زنجیریں جو ٹوٹیں

شام مدینے جا کر ہوگی


خلد ادیب” ہے دشت مدینہ

بستی کتنی سندر ہوگی

  _______________

یا رب مجھے وہ نعت کی توفیق عطا ہو

یا رب مجھے وہ نعت کی توفیق عطا ہو

جو رتبۂ آقا سے نہ کم ہو نہ سوا ہو


بے سود ہے ہر ایک دوا یا کہ دعا ہو

وہ دیکھ لیں بیمار کی جانب تو شفاء ہو


مالک مجھے صحرائے مدینہ بھی عطا ہو

جو خاک اڑانا ہی مقدر میں لکھا ہو


لائی ہے صبا نکہت سرکار مدینہ

اے بلبل توصیف نبی نغمہ سرا ہو


بر پائیے محشر کا سبب ہم تو یہ سمجھے

خلقت پہ عیاں عظمتِ محبوب خدا ہو


سرکار اٹھائیں گے کرم پاش نگاہیں

اے درد جگر اور سوا اور سوا ہو


پہونچا دیا جس نے مجھے دربار نبی تک

اللہ مرے درد محبت کا بھلا ہو


سختی وہ قیامت وہ میزان وه پرسش

سرکار اگر رحم نہ فرمائیں تو کیا ہو


ان پاک کھجوروں کے درختوں سے لپٹنا

جب تیرا مدینے میں گزر باد صبا ہو


باقی ہے ادیب” اب تو یہی آخری حسرت

جب خاک اڑے میری مدینے کی ہوا ہو

  _______________

خدارا اے عازم مدینہ پہونچ کے پیش حضور عالی

 خدارا اے عازم مدینہ پہونچ کے پیش حضور عالی
بھلا نہ دینا ہمیں کو اس دم ہو جب کہ خیرات بٹنے والی

یہ جبر قسمت کے ظلم آخر کہاں تک اسے بیکسوں کے والی

گراں ہے اب تو غریب دل پر ابھرتے جذبوں کی پائمالی


کہاں وہ آداب عشق و مستی کہاں میں اک رند لاو بالی

یہ سب انہیں کا کرم ہے ورنہ کسے ملا جذبۂ بلالی


سلام اخلاص کی صدا پر اٹھے جب ان کی نگاہ رحمت

ادب سے اس وقت عرض کرنا ہمارا حال شکستہ حالی


تمام پنہائے دو جہاں میں بجز مدینے کی وادیوں کے

ہمارے دل کو سکوں کی دولت کہیں نہیں ہاتھ آنے والی


چمک اٹھی قسمت دو عالم کرم کا جب بھی کیا اشارہ

بدل گئی خلد سے جہنم جو رحمتوں کی نگاہ ڈالی


تری تجلی سے سبز گنبد نظام ہستی ہے اک حقیقت

جو تو نہ ہوتا تو بزم عالم تھی صرف اک جنت خیالی


کسی طرح جلوہ زار طیبہ ملے تری دید کی سعادت

اسی کا طالب ہر ایک دل ہے اسی کی ہے ہر نظر سوالی


ہیں جلوہ ہائے دیارِ طیبہ ادیب” ہر سمت آشکارا

ہمارا ذوق نظر انوکھا ہماری شانِ طلب نرالی

  _______________

محشر میں اس شان سے آیا کون و مکاں کا والی ہے

 محشر میں اس شان سے آیا کون و مکاں کا والی ہے

سر پر ہے دستار شفاعت دوش پہ کملی کالی ہے


نور مجسم کی آمد ہے ظلمت کی پامالی ہے

کوند رہی ہے برق تجلی رات گزرنے والی ہے


تلخی کو شیرینی دیکر بدلا دنیا کا ماحول

ظلمت کو پر نور بنایا زلف جو رخ پہ ڈالی ہے


سوچئے تو کیا خالق عالم ہم سے بھلا راضی ہوگا

نام نبی لب پہ ہے مگر دل عشق نبی سے خالی ہے


شافع محشر آپ جو چاہیں مالک محشر رحم کرے

ورنہ سزا سے بچنا کیسا مجرم خود اقبالی ہے


ساری دنیا مل کے جو چاہے ہم کو مٹا دے نا ممکن

خالق کے محبوب کے ذمے امت کی رکھوالی ہے


آپ کے در پر آئے تو کیسے کیا منہ لیکر آئے ادیب”

سرور عالم آپ سے نادم اس کی بداعمالی ہے

  _______________

یہ ممکنات سے ہے سب تجھے خدا دیدے

 یہ ممکنات سے ہے سب تجھے خدا دیدے

اگر تو صرف محمد کا واسطہ دیدے


تو اپنے منھ سے نہ کچھ مانگ مانگنے والے

کریم ہے ترا آقا نہ جانے کیا دیدے


الگ ہی رکھ مجھے دربار داریوں سے خدا

فقط رسائی دربار مصطفیٰ دیدے


نہیں ہے اور کوئی ذات مصطفیٰ کے سوا

جمال کی جو مہ و مہر کو ضیا دیدے


پہنچ کے طیبہ میں دل کو لگا ہے یہ دھڑکا

نہ اذن رخصتی محبوب کبریا دیدے


جمال صاحب خضری کو دیکھنا ہے مجھے

حجاب نور نگاہوں کو راستہ دیدے


الہی سخت بہت ہے صراط عشق نبی

کوئی رفیق سفر منزل آشنا دیدے


ہر اک نصیب میں لکھی نہیں ہے یہ نعمت

ہے عشق سرور عالم جسے خدا دیدے


بدل دے ایسے الہی مرے نقوش حیات

زمین دل کو محمد کا نقش پا دیدے


نظر کے سامنے سر کار جلوہ فرما ہیں

اجل نہ ایسے میں آکر کہیں صدا دیدے


اس کو کہئے عطا و کرم کا اک پیکر

جو اپنے خون کے پیاسے کو بھی ردا دیدے


” ادیب” ناز ہو اس کو نہ کیسے قسمت پر

نبی جسے لب اعجاز سے دعا دیدے

  _______________

وجہ نظام کن فکاں حاصل کا ئنات ہے

 وجہ نظام کن فکاں حاصل کا ئنات ہے

باعث ناز کبریا میرے نبی کی ذات ہے


طیبہ کا منظر حسیں زیب تصورات ہے

ذوق نگاه دیدہ ور غرق تجلیات ہے


آپ ہیں مخزن کمال آپ کی ذات بے مثال

یوں تو بشر ہیں سب مگر آپ کی اور بات ہے


جس نے مٹا کے رکھد یا فرق بلند و پست کا

جنبش چشم مصطفیٰ حاصل معجزات ہے


ظلمت و نور پر انھیں بخشا خدا نے اختیار

دن کو کہیں تو دن ہے وہ رات کہیں تو رات ہے


اپنا وجود بے ثبات ان سے وجود کا ئنات

اپنی حیات ہے عدم ان کا عدم حیات ہے


کھیل نہیں ہے دیکھنا جلوۂ ذات مصطفیٰ

ذوق نگاہ سے عیاں عجز مشاہدات ہے


یاس کی لذتیں کبھی آس کی جنتیں کبھی

یا د رسول میں یہ دل مرکز کیفیات ہے


چشم کرم کا واسطہ زحمت یک نظر حضور

میرا دل تباہ بھی قابل التفات ہے


جذبۂ عشق مصطفیٰ آ گیا کام اے ادیب”

ور نہ غم حیات سے کس کو ملی نجات ہے

 _______________


سرور دو عالم کا لو وہ آستاں آیا

 سرور دو عالم کا لو وہ آستاں آیا

ہوش تاب نظّارہ وقت امتحاں آیا


راز عظمتِ انساں کھل گیا فرشتوں پر

زیر پائے آقا جب اوج لا مکاں آیا


وہ تو خالق کل ہے بھیجتا کہیں لیکن

شکر ہے کہ ہم ہی میں وجہ کن فکاں آیا


خلوتوں کی باتیں ہیں یہ تو بس خدا جانے

کس نے میزبانی کی کون مہماں آیا


زندگی کا مقصد ہے سیر وادئی بطحی

ایک کارواں گزرا ایک کارواں آیا


جب نظر مصیبت میں اٹھ گئی سوئے طیبہ

جوش پر وہیں ان کا لطف بیکراں آیا


رحمت الہی بھی جھوم اٹھی قیامت میں

جب ادیب” نعتوں کا لیکے ارمغان آیا

 _______________


نہ کوثر نہ جنت کا در ڈھونڈتی ہے

 نہ کوثر نہ جنت کا در ڈھونڈتی ہے

محمد کو میری نظر ڈھونڈتی ہے


سکوں چاہتی ہے تو چشم فلک بھی

کف پائے خیر البشر ڈھونڈتی ہے


خبر دیکھیے کیا مدینے سے آئے

دعا آج اپنا اثر ڈھونڈتی ہے


بصد آرزو اب مری شام فرقت

جو طیبہ میں ہو وہ سحر ڈھونڈتی ہے


غلامئی شاہِ دو عالم جہاں میں

بلال حزیں کا جگر ڈھونڈتی ہے


بڑھانے کو تو قیر انسانیت کی

رسالت لباس بشر ڈھونڈتی ہے


جگہ پائیں جو دامنِ مصطفیٰ میں

مری آنکھ ایسے گہر ڈھونڈتی ہے


ادیب ” خطا کار کو روز محشر

شفیع الوری کی نظر ڈھونڈتی ہے

 _______________


یہ ہے مدینۃ النبی یہ ہے مدینۃ النبی

 یہ ہے مدینۃ النبی یہ ہے مدینۃ النبی

تجلیات سرمدی یہاں عیاں گلی گلی

نہ ڈھونڈھ بن کے اجنبی در رسول ہاشمی

یہ ہے مدینۃ النبی یہ ہے مدینۃ النبی


جو ذرے گرد راہ ہیں مثال مہر و ماہ ہیں

وہ جلوے بے پناہ ہیں ہیں جبرئیل حیرتی

یہ ہے مدینۃ النبی یہ ہے مدینۃ النبی


یہ ڈالیاں کھجور کی ہوں جیسے نخل طور کی

شعاعیں جن کے نور کی بکھیرتی ہیں روشنی

یہ ہے مدینۃ النبی یہ ہے مدینۃ النبی


یہ موج سلسبیل ہے وہ باب جبرئیل ہے

ہر ایک شئے جمیل ہے یہیں ہے کیاری خلد کی

یہ ہے مدینۃ النبی یہ ہے مدینۃ النبی


سماں بقیع پاک کا وہ ہے مزار عائشہ

ادھر حسن سا مہ لقا ادھر نبی کی لاڈلی

یہ ہے مدینۃ النبی یہ ہے مدینۃ النبی


یہیں ہے صدق جلوہ گر یہیں عدالت عمر

یہیں غنی سا اہلِ زریہیں ہے فقر حیدری

یہ ہے مدینۃ النبی یہ ہے مدینۃ النبی


یہیں سے میرے محترم ہے قبلتین کچھ قدم

جہاں سے جانب حرم تھا مر گیا رخ نبی

یہ ہے مدینۃ النبی یہ ہے مدینۃ النبی


یہ مسجد رسول ہے یہیں در قبول ہے

وہ حجرۂ بتول ہے جو خلد ہے ادیب” کی

یہ ہے مدینۃ النبی یہ ہے مدینۃ النبی

 _______________


اے باد صبا ہو جو مدینے میں حضوری

 اے باد صبا ہو جو مدینے میں حضوری

کہنا مرے سرکار سے حال غم دوری


دیدار کی حسرت اگر ہو پائی نہ پوری

حالِ دلِ بیتاب کو ہوگی نہ صبوری


ہو اور فزوں اور فزوں شوق حضوری

حسرت وہی حسرت ہے جو ہو پائے نہ پوری


اے رحمت عالم تری اس شان کے صدقے

پھیلائے ہیں دامن سبھی ناری ہوں کہ نوری


آجائیں دم نزع جو بالیں پہ محمد

ہو جائے مکمل جو کہانی ہے ادھوری


بس ایک ترے دم سے مجھے جذب تصور

ہو جائے گی حاصل در احمد پہ حضوری


کرنے کے لئے ذکر شفاعت کا زباں سے

ہے اشک ندامت سے وضو کر نا ضروری


جب بعد اجل روح کے ضامن ہیں محمد

پھر کیا ہے ادیب” آپ کو یہ دَور عبوری

 _______________


Top Categories