madaarimedia

سرگوشیاں ہیں باہم محراب میں منبر میں

 سرگوشیاں ہیں باہم محراب میں منبر میں

سرکار مدینہ ہیں صدیق کے پیکر میں


شهکار رسالت ہے ایثار کا وہ پیکر

اللہ نبی کو بس چھوڑ آیا ہو جو گھر میں


نا فہم نہ سمجھیں گے ہٹ دھرم نہ مانیں گے

کیا منصب فاروقی ہے چشم پیمبر میں


انوار کی دنیا میں وہ کیسا غنی ہوگا

لکھے ہوئے ہوں جس کے دونور مقدر میں


اعجاز دکھاتے ہیں جب ختم رسل اپنا

زور اسد اللہی آجاتا ہے حیدر میں


بچھڑے ہوئے مدت کے صدیق و عمر دونوں

آسودہ نظر آئے آغوش پیمبر میں


آقا کی غلامی کا انعام کوئی دیکھے

کونین کی نعمت ہے دامان ابوذر میں


سلمان و بلال آقا سرشار ہوئے جس سے

اک بوند اسی مئے کی دیدیجیے ساغر میں


یہ کس نے دہائی دی ساقئ مدینہ کی

اٹھی ہے سرِ محشر اک موج سی کوثر میں


مایوس ادیب ” اتنا ہونا ہے ترا بے جا

اصحاب نبی ہو نگے حامی ترے محشر میں

 _______________


تری ذات سے منور یہ فلک ہے یہ زمیں ہے

 تری ذات سے منور یہ فلک ہے یہ زمیں ہے

تو ہی شاہکار قدرت تو ہی نور اولیں ہے


تو کبھی ہے لا مکاں میں کبھی بزم بیکساں میں

کبھی عرشِ حق ہے مسند کبھی بوریہ نشیں ہے


ترے نور نے مٹائے رہ وہم کے اندھیرے

ترے نور سے ہی روشن مری منزل یقیں ہے


رخ پاک کی تجلی ہے مکان و لا مکاں میں

کیئے دو جہاں معطر تری زلف عنبریں ہے


یہ کرم کی انتہا ہے کہ اماں عدو کو بخشی

تری ہر ادا نرالی ترا ہر عمل حسیں ہے


سر حشر عاصیوں کا تو ہی آسرا ہے ورنہ

وہاں کام آنے والا کوئی دوسرا نہیں ہے


دم نزع کی کشاکش کریں آپ آکے آساں

یہی انتظار آقا مجھے وقت واپسیں ہے


جو لحد میں آئیں گے وہ تو ادیب ” میں کہوں گا

یہ وہی ہیں جن کی الفت مری روح میں مکیں ہے

 _______________


اکرام کم نہیں ہیں یہ سر کار آپ کے

 اکرام کم نہیں ہیں یہ سر کار آپ کے

آزاد ہیں غموں سے گرفتار آپ کے


محروم دید آنکھوں میں اشکوں کے کچھ گہر

لائے ہیں نظر تشنۂ دیدار آپکے


اے آرزوئے ہر دل بیتاب آئیے

سب منتظر ہیں حاضر در بار آپ کے


بے مثل بے نظیر ہیں یا سید البشر

روشن اصول سیرت و کردار آپ کے


اب ظلمتوں کا ہونا سکے گا کہیں گزر

پھیلے ہیں کائنات میں انوار آپکے


عرفان کیا عروج مراتب کا ہو سکے

جبریل بھی ہیں غاشیہ بردار آپ کے


کرتے بہ یک نگاہ ہیں ہر اک درد کا علاج

عیسی نفس ہیں آج بھی بیمار آپ کے


کیوں ان کی اقتدیٰ سے ہدایت نہ پائیں ہم

اصحاب میں نمایاں ہیں اطوار آپ کے


کیوں آپ کو ہے فکر و غم حشر ائے ادیب”

جب فخر کائنات ہیں غمخوار آپ کے

 _______________


اے سرور کونین شہنشاہِ دوعالم

 اے سرور کونین شہنشاہِ دوعالم

سر تا بہ قدم پیکر انوار مجسم


مسجود ملائک ہے ترا نور مکرم

کہتی ہے چمکتی ہوئی پیشانئ آدم


مدح شہ لولاک بیاں کیسے کریں ہم

ذکر ان کا سوا فرصت ہستی ہے بہت کم


اللہ رے شیرینئ گفتار کا عالم

نفرت کے شراروں کے لئے پیار کی شبنم


جب ثور میں زانو پہ سرختم رسل تھا

اس وقت کوئی دیکھتا صدیق کا عالم


سرکار دو عالم کی دعاؤں کا ثمر تھا

کہتا ہے زمان جنہیں فاروق معظم


اک درس ہے اس ذات کی بکھری ہوئی سیرت

قرآن کی آیات ہیں کی جس نے منظم


مرہون کرم آج بھی ہے دین انہیں کا

وہ جن کا دوپٹہ بنا اسلام کا پرچم


سب پر ہیں اسی مہر رسالت کی شعائیں

وہ بوذر و سلمان ہوں یا زید بن ارقم


خون اسد اللہی کی گردش ہے رگوں میں

کر سکتے ادیب ” اب بھی ہیں خیبر شکنی ہم

 _______________


اللہ اللہ حضور کی محفل

 اللہ اللہ حضور کی محفل

نور کے لوگ نور کی محفل


آسمانوں پہ بھی سجائی گئی

ان کے جشن ظہور کی محفل


کانپ جاتے ہیں بایزید و جنید

ہے وہ کتنے شعور کی محفل


حشر میں ہونگے ساقئ کوثر

اور شراب طہور کی محفل


جز دیار نبی کہیں بھی نہیں

عاشقوں کے سرور کی محفل


ہو نظر تو دیارِ طیبہ کا

ذرہ ذرہ ہے طور کی محفل


ہے مزین جمال آقا سے

پاس کی بزم دور کی محفل


آمد مصطفیٰ سے اجڑی ادیب”

اہل کبر و غرور کی محفل

 _______________


پھیلا ہوا وہ دامن رحمت تو دیکھیے

 پھیلا ہوا وہ دامن رحمت تو دیکھیے

محشر میں مصطفیٰ کی عنایت تو دیکھیے


شیریں ہے اتنا نام محمد خدا گواہ

پیوست لب سے لب ہیں حلاوت تو دیکھیے


امت کسی نبی کی ہو وہ بخشوا ئینگے

میرے نبی کی شان شفاعت تو دیکھیے


ہیں جتنے انبیاء ورسل سب ہیں مقتدی

اقصیٰ میں مصطفیٰ کی امامت تو دیکھیے


سر اٹھ نہیں رہا ہے کسی تاجدار کا

سرکار دو جہاں کی وجاہت تو دیکھیے


سرکار ہیں قیام میں دنیا ہے محو خواب

خیر الامم کا ذوق عبادت تو دیکھیے


حلقہ بگوش ہو کے گیا جو بھی آ گیا

صلح حدیبیہ کی سیاست تو دیکھیے


دونوں جہان دے کے خریدار ہے خدا

اشک غم رسول کی قیمت تو دیکھیے


ہیں منتظر فرشتے اذان بلال کے

یہ رتبۂ غلام رسالت تو دیکھیے


خیر البشر کے ساتھ میں ہیں افضل البشر

مرکے بھی ہیں قریب رفاقت تو دیکھیے


خود بھوکے خاندان کو پہنچاتے ہیں غذا

فاروق کی یہ شان خلافت تو دیکھیے


سر کار خود ہی گوش برآواز ہیں ادیب”

مداح مصطفیٰ کی یہ قسمت تو دیکھیے

 _______________


غلام جس کو رسولِ زماں بناتے ہیں

 غلام جس کو رسولِ زماں بناتے ہیں

زمیں بھی ہو تو اسے آسماں بناتے ہیں


پئے دیار نبی کارواں بناتے ہیں

ضعیف ارادوں کو بادل جواں بناتے ہیں


اگر وہ چاہیں تو دیں درد کو سکوں سے بدل

جو خارزاروں کو بھی گلستاں بناتے ہیں


ہے بنتا نقشہ مدینے کے ریگزاروں کا

جنوں میں ہم جو کوئی بھی نشاں بناتے ہیں


وہ ذرے جن کو نوازا تھا پائے آقا نے

زمیں پہ ایک نئی کہکشاں بناتے ہیں


جو پھول بن کے تھے بر سے لب رسالت سے

وہ جملے کتنی حسیں داستاں بناتے ہیں


زباں سے پڑھتے ہیں آقا جو سورہ کوثر

زبان دانوں کو بھی بے زباں بناتے ہیں


زمانہ جس کی بنی کو بگاڑ دیتا ہے

تو اس کو سرور کون و مکاں بناتے ہیں


سبھی ہیں حاضر دربار دیکھنا یہ ہے

حضور کس کو سگ آستاں بناتے ہیں


جہاں ادیب ” تھی آباد کفر کی بستی

حضور مرکز ایماں اسے بناتے ہیں

 _______________


نوری چہرہ روشن آنکھیں ابرود و خمدار کمانیں گیسو گھونگھر والے ہونگے

 نوری چہرہ روشن آنکھیں ابرود و خمدار کمانیں گیسو گھونگھر والے ہونگے

آقا کی یہ شان ہے کافی قبر میں یہ پہچان ہے کافی چاروں سمت اجالے ہونگے


ہو گی قیامت حشر کی گرمی جو شئے ہوگی تپتی ہوگی سب ہی کہیں گے نفسی نفسی

ہم سے سورج کا کیا رشتہ ہم تو اس دن اپنے نبی کا دامن سر پر ڈالے ہونگے


نائب شہ صدیق اکبر اور عمر عثمان و حید ر حسنین و سلمان و ابوذر

ہر پیاسے کی پیاس بجھانے گردکوثر پینے پلانے جمع سبھی متوالے ہونگے


حشر میں ان کی شان یہ ہوگی اور شکلِ احسان یہ ہو گی سب سے بڑی پہچان یہ ہوگی

ساتھ میں ان کے سچے ہونگے کچھ لاوارث بچے ہونگے کچھ گودی کے پالے ہونگے


جب وہ نوازش فرمائیں گے ہم کو مدینے بلوائیں گے اس حالت سے ہم جائیں گے

الجھے الجھے گیسو ہو نگے آنکھوں میں کچھ آنسو ہونگے اور پاؤں میں چھالے ہونگے


بزم دو عالم آج سجی ہے ہر اک بگڑی بات بنی ہے ہر جانب اک دھوم مچی ہے

جھومتی ہیں پر نور فضا ئیں کہہ کے چلی ہیں مست ہوائیں آقا آنے والے ہونگے


ہوگی ادیب ” ان کی جب رحمت تجھ پہ وہ فرمائیں گے شفقت ہائے وہ کیسی ہو گی ساعت

ان کے لبوں پر ہوگا تکلم کھیلتا ہوگا نور تبسم اپنے لبوں پر تالے ہونگے

 _______________


کتنا عجیب وصل و فراق رسول ہے

 کتنا عجیب وصل و فراق رسول ہے

اتنا ہی مختصر بھی ہے جتنا کہ طول ہے


دل میں نہیں جو عکس جمال رسول ہے

آئینہ ہے ضرور مگر نا قبول ہے


مثل اویس رکھتا ہے جو عشق مصطفیٰ

وہ دور بھی رہے تو قریب رسول ہے


خیر الوریٰ کی شان شفاعت تو دیکھیے

ہم عاصیوں پہ رحمت حق کا نزول ہے


دیکھو تو اتباع رسالت کا معجزہ

جو بے اصول تھا وہ بنا با اصول ہے


محنت کا درس دے گئی ہم کو یہ ایک بات

چکی چلانا باعث فخر رسول ہے


مکہ کی راہ بھول کے طیبہ میں آگیا

کتنی حسین کتنی مبارک یہ بھول ہے


کہدو یہ کہکشاں سے مرے پاؤں چوم لے

اب میرے سر پہ پائے رسالت کی دھول ہے


طیبہ بلائیں یا کہ تڑپنے کا حکم دیں

ہر فیصلہ حضور کا مجھ کو قبول ہے


ہے سامنے تو جلوۂ خضری مگر حضور

اب تو نگاہ کو یہ مسافت بھی طول ہے


اپنی زباں سے کاش یہ فرما دیں مصطفیٰ

ہاں یہ ادیب ” بھی مرے قدموں کی دھول ہے

 _______________


سب سنی ان سنی ہو جاتی گزارش میری

 سب سنی ان سنی ہو جاتی گزارش میری

شافع حشرنہ کرتے جو سفارش میری


غم ہستی نہیں مجھ کو غم کونین قبول

وہ رضا مند رہیں ہے یہی خواہش میری


میری مجبوریوں روکونہ مجھے جانے دو

راہ تکتی نہ ہو آقا کی نوازش میری


مجھ کو رسوائیے محشر سے بچا لو آقا

ہو نہ جائے بھرے مجمع میں نمائش میری


آپ کی مدح کا صدقہ ہے رسول اکرم

لوگ کرتے ہیں زمانے میں ستائش میری


آپ اگر چاہیں تو توفیق رسائی دیدیں

ور نہ کیا چیز ہے یہ کوشش و کاوش میری


جھوم کر اٹھے مدینے سے کرم کے بادل

رنگ لائی ہے ادیب ” آنکھوں کی بارش میری

 _______________


Top Categories