madaarimedia

کہیں کیا کیسے فیضان حبیب کبریا پایا

 کہیں کیا کیسے فیضان حبیب کبریا پایا

کبھی با واسطہ پایا کبھی بے واسطہ پایا


بڑی مشکل ن سے اپنی جستجو کا منتہا پایا

مدینے کی گلی سے لامکاں کا راستہ پایا


حقیقت میں اسے کہتے ہیں انعامات کی بارش

خدا کو خود ہی فرماتے ہوئے صل علی پایا


عمر جیسا جری بھی ان کو سیدنا پکار اٹھا

بلال مصطفیٰ نے یہ غلامی کا صلہ پایا


ہوئے ہیں ذہن و دل پر منکشف اسرار پنہائی

تفکر نے مرے جب گوشۂ غار حرا پایا


تمنائے حضوری جاگ اٹھی انگڑائیاں لیکر

مدینے کی طرف جاتا جو کوئی قافلہ پایا


تمناؤں کا جمگھٹ تھا مقام ذوالحلیفہ تک

مدینہ جا کے تاب عرضِ غم کو لا پتہ پایا


جو ٹپکے تھے مری آنکھوں سے قطرے ہجر طیبہ میں

انھیں قطروں سے اپنی فرد عصیاں کو دھلا پایا


پس مردن بھی آسودہ ہیں زیر دامنِ رحمت

رسول اللہ نے صدیق جیسا باوفا پایا


گئے ہوں قتل کرنے اور بنیں ہیں ضامن ہستی

تعجب خیز ہے تاریخ میں یہ واقعہ پایا


شب ہجرت سکون قلب کا اللہ رے عالم

علی کو بستر سرکار پر سوتا ہوا پایا


وہیں کونین کی نعمت و ہیں پر قاسم نعمت

مدینے ہی میں جا کر ہم نے جینے کا مزہ پایا


ادیب اپنا لہو دیکر ہیں جس نے پھول برسائے

مثال اس ذات اقدس کی زمانہ کب ہے لا پایا

 _______________


یہ بھی ہے معجزۂ احمد مختار نیا

 یہ بھی ہے معجزۂ احمد مختار نیا

ذکر سو بار کرو لگتا ہے ہر بار نیا


منتظر نور مجسم کے نظر آتے ہیں

پیرہن نور کا پہنے در و دیوار نیا


ظلم کے ہاتھ سے شمشیر جفا چھوٹ گئی

رنگ لائی ترے اخلاق کی تلوار نیا


دشمنوں پر بھی کرم کر کے ستم کے بدلے

آدمیت کو دیا آپ نے کردار نیا


قبر میں آئیں جو آقا تو بچھانا آنکھیں

تیرا انداز ہو دیوانۂ سر کار نیا


مستیاں بانٹتا ہے میکدۂ عشق رسول

خم نیا جام نیا مئے نئی میخارنیا


ان کے جو دامن احساس پہ گزرے نہ گراں

رنگ ایسا ہو کوئی دیدۂ خونبار نیا


کوئی راہی جو حضوری کی تڑپ رکھتا ہو

کیف دے وادئ بطحیٰ بھی کا ہر اک خارنیا


جوڑ تو لیجئے امی لقبی سے رشتہ

رخ بدل ڈالیں گے خود علم کے اسرار نیا


ہے یہاں عظمتِ سرکار کے سکے کا چلن

ڈھونڈ گستاخ رسالت کوئی بازار نیا


منکر عظمت سرکار سے ہشیار ادیب”

روپ بدلے ہیں یہ ایماں کے خریدار نیا

 _______________


نجات انسانیت پائے ہدایت ہو تو ایسی ہو

 نجات انسانیت پائے ہدایت ہو تو ایسی ہو

نبوت ہو تو ایسی ہو رسالت ہو تو ایسی ہو


زباں کھولی تو الفاظ و معنی جھوم جھوم اٹھے

فصاحت ہو تو ایسی ہو بلاغت ہو تو ایسی ہو


جو دب کے صلح کی اس کا اثر معکوس ہی نکلا

سیاست ہو تو ایسی ہو قیادت ہو تو ایسی ہو


مصلے پر ہوں آقا کے کبھی صدیق فرمائیں

فضیلت ہو تو ایسی ہو صداقت ہو تو ایسی ہو


مکیں ہیں گنبد خضری میں صدیق و عمر دونوں

محبت ہو تو ایسی ہو رفاقت ہو تو ایسی ہو


ہیں اوراق کلام اللہ رگیں خونِ عثماں سے

عبادت ہو تو ایسی ہو تلاوت ہو تو ایسی ہو


خدا کے گھر ہوئے پیدا خدا کے گھر میں دم توڑا

ولادت ہو تو ایسی ہو شہادت ہو تو ایسی ہو


نبی کے حکم پر بھی فضل صدیقی کے منکر ہیں

عداوت ہو تو ایسی ہو جہالت ہو تو ایسی ہو


ادیب ” اصحاب کی مدحت سے تجھ کومل گئی شہرت

جو نسبت ہو تو ایسی ہو سعادت ہو تو ایسی ہو

 _______________


پھولوں کو مہک کلیوں کو رنگت نہ ملیگی

 پھولوں کو مہک کلیوں کو رنگت نہ ملیگی

جب تک چمن طیبہ سے نسبت نہ ملیگی


تسکین کی دل کو میرے دولت نہ ملیگی

جب تک در سر کار سے قربت نہ ملیگی


انکار میں اعمال میں جز سیرت آقا

ڈھونڈھے سے بھی ایسی کہیں وحدت نہ ملیگی


سردار عمر سمجھیں بلال حبشی کو

دنیا میں غلاموں کو یہ عزت نہ ملیگی


وہ ظلم سے باز آ گئے صدقے میں نبی کے

جو کہتے تھے مزدور کو اجرت نہ ملیگی


کہتی تھی یہ بیدارئ تقریر علی کی

سو جاؤ کہ پھر یہ شب ہجرت نہ ملیگی


خالی نہ رہے کوئی نفس ذکر نبی سے

موت آئی تو پھر اتنی بھی مہلت نہ ملیگی


اے عظمت سرکار کے منکر یہ سمجھ لے

سرکار نہ چاہیں گے تو جنت نہ ملیگی


مقصود نظر گنبد خضری ہے تو یارب

کیا آنکھوں کو توفیق زیارت نہ ملیگی


مدحت کا نہ جب تک کہ ادیب” آئے سلیقہ

تخئیل کی پرواز کو رفعت نہ ملیگی

 _______________


حضرت یوسف ہیں حیراں حسن صورت دیکھ کر

 حضرت یوسف ہیں حیراں حسن صورت دیکھ کر

محو ہیں قدسی میرے آقا کی سیرت دیکھ کر


طاعت خیر الوریٰ سے زندگی تعبیر ہے

ہم تو یہ سمجھے ہیں قرآں کی عبارت دیکھ کر


کفر کی تاریکیوں پر جیسے بجلی گر پڑی

ہر طرف پھیلا ہوا نور رسالت دیکھ کر


دیدیا امی لقب نے علم و دانش کو فروغ

دہر میں تاریکئ دور جہالت دیکھ کر


جب تباہی کے دہانے پر کھڑی تھی زندگی

خالق کل نے انھیں بھیجا ضرورت دیکھ کر


خون کے پیاسوں کو جب سرکار نے بخشی ردا

سرکشوں کے سرجھکے یہ شانِ رحمت دیکھ کر


منزل قوسین تک پہنچے ہیں پائے مصطفیٰ

ہیں ملک حیراں عروج آدمیت دیکھ کر


اُٹھ گئی آخر نگاه رحمة للعالمیں

رحمتیں برسیں میرے اشک ندامت دیکھ کر


قبر میں ہر سمت جنت کے دریچے کھل گئے

جب کہا صل علیٰ ان کی شباہت دیکھ کر


خون میں شامل ہے اُن کے خون کا ذرہ ادیب”

رشک کرتا ہے زمانہ میری نسبت دیکھ کر

 _______________


جو نورِ مصطفیٰ زینت دہ مکہ نہیں ہوتا

 جو نورِ مصطفیٰ زینت دہ مکہ نہیں ہوتا

بتوں کا گھر تو ہوتا خانہ کعبہ نہیں ہوتا


جو ان کو بھیجنا تخلیق کا منشا نہیں ہوتا

سوال حضرت آدم کبھی پیدا نہیں ہوتا


نہ کیوں تکرار قرب خاص میں ہوا دن منی کی

کہ محبوب و محب کے درمیاں پردہ نہیں ہوتا


ہے صدقہ سرور عالم کے پائے ناز کا ورنہ

مرا ایمان ہے یثرب کبھی بطحی نہیں ہوتا


محمد مصطفی محبوب رب نور مجسم ہیں

دلیل نور یہ ہے نور کا سایہ نہیں ہوتا


بہار گلشن طیبہ کی رکھتا ہے طلب دل میں

جنون عشق احمد طالب صحرا نہیں ہوتا


کسی کے در پہ کشکول گدائی لیکے کیوں جاؤں

غلام مصطفیٰ منت کش دنیا نہیں ہوتا


ہمہ دم اپنے گرد و پیش اک جھرمٹ ہے جلووں کا

تری یادوں کے صدقے میں کبھی تنہا نہیں ہوتا


بجائے جوش نعت مصطفیٰ میں ہوش لازم ہے

گزر جانا حدوں سے اے ادیب ” اچھا نہیں ہوتا

 _______________


دور شادمانی ہے ہر طرف زمانے میں

 دور شادمانی ہے ہر طرف زمانے میں

کس کی آمد آمد ہے ہاشمی گھرانے میں


حکم حق سے تھیں ساکن گردشیں دو عالم کی

ساعتیں کہاں گزریں ان کے آنے جانے میں


عائشہ نے حجرے میں گمشدہ سوئی پائی

کھل گئے در دنداں جب بھی مسکرانے میں


نسبت رسالت سے عشق اولیاء پایا

سو دئیے ہوئے روشن اک دیا جلانے میں


بنٹ رہی ہیں روز و شب نعمتیں دو عالم کی

کچھ کمی نہیں پھر بھی آپ کے خزانے میں


امتحاں کی منزل ہے مصطفیٰ کے دیوانو !

ہے تباہئی ایماں پاؤں لڑکھڑانے میں

 _______________


ہم ہیں یہ لو لگائے دیار حضور میں آئے تو موت آئے دیار حضور میں

 ہم ہیں یہ لو لگائے دیار حضور میں

آئے تو موت آئے دیار حضور میں


مالک اگر بلائے دیارِ حضور میں

سر کو قدم بنائیں دیار حضور میں


شاہانِ دہر کیا ہیں فرشتے بھی صف بہ صف

آتے ہیں سر جھکائے دیار حضور میں


خاروں کو بھی گلوں کی صفت اسلئے ملی

کیوں کوئی دکھ اٹھائے دیار حضور میں


مہر جلال وادئی مکہ میں شعلہ ریز

اور جاند مسکرائے دیار حضور میں


اے حسن کا ئنات فدا تجھ پہ کیا کریں

ہم دل تو چھوڑ آئے دیار حضور میں


تشنہ لبوں کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں ہر طرف

ابر کرم کے سائے دیار حضور میں


سوغات بہر نذر ضروری ہے اے ادیب”

دل توڑ لے تو جائے دیار حضور میں

 _______________


ہوتی نہ اگر زلفِ پریشان محمد

 ہوتی نہ اگر زلفِ پریشان محمد

محشر میں کہاں جاتے غریبان محمد


وہ چاہیں تو رک جائے ابھی گردش دوراں

کیا پوچھتے ہو طاقت و امکان محمد


مدت کی تپی تونسی زمیں ہوگئی سیراب

جب عام ہوئی بارش فیضانِ محمد


وہ جن کو نہ مل پائی حضوری کی اجازت

گزرے ہیں کچھ ایسے بھی غلامان محمد


کرتے ہیں فقیری میں نگہدارئ غیرت

پھیلاتے نہیں ہاتھ گدایان محمد


بھجوایا تھا آقا نے جنہیں پیرہن اپنا

کہیے انہیں منجملۂ خاصان محمد


صدیق وہی عدل کی میزان میں ٹھہرا

جس دل میں ترازو ہوا پیکان محمد


بے مثل سخاوت میں شجاعت میں وہی ہیں

جن سے کہ بڑی مرتبت وشان محمد


سمجھا ہے ” ادیب” ان کو تو بس ذات خدا نے

صدیق بھی کر پائے نہ عرفان محمد

 _______________


مدینہ کی جانب گھٹائیں رواں ہیں

 مدینہ کی جانب گھٹائیں رواں ہیں

کہاں ہیں مری آرزوئیں کہاں ہیں


فرشتوں میں ہلچل ہے معراج کی شب

حضور آنے والے سر لامکاں ہیں


کتاب حیات دو عالم کو دیکھا

محمد ہی عنوان ہر داستاں ہیں


سجائی تو ہے بزم ذکرِ رسالت

نہ دیکھیں جو وہ محنتیں رائیگاں ہیں


انہیں کے تو سر پر ہے تاج شفاعت

وہی نازشِ جملہ پیغمبراں ہیں


کوئی انتہائے نوازش تو دیکھے

خدا میزباں ہے نبی میہماں ہیں


وہی تو بنے باعث وحئ اقراء

وہی تو کلام خدا کی زباں ہیں


بہت سخت ہے منزل درک احمد

کہ خاموش صدیق سے رتبہ داں ہیں


یہی کہہ کے خضرا نے آغوش کھولی

عمر پر یہ فرقت کے لمحے گراں ہیں


ہیں دو نور عثمان نے جب سے پائے

زمیں کہہ رہی ہے کہ ہم آسماں ہیں


گئے علم کے شہر میں ہم تو دیکھا

کہ ہر جا علی کے قدم کے نشاں ہیں


” ادیب” ان کو سمجھو نہ تم میری آنکھیں

کھلی عشق سرکار کی کھڑکیاں ہیں

 _______________


Top Categories