madaarimedia

ہیں بد سے بھی بدتر مرے اعمال مدینہ

 ہیں بد سے بھی بدتر مرے اعمال مدینہ

کیا آؤں ترے پاس بایں حال مدینہ


یوں تو ہوں میں اک مفلس و کنگال مدینہ

آنسو ہیں فقط میرے زر و مال مدینہ


میں اڑ کے پہونچ جاؤں در پاک نبی تک

دیدے مجھے تو ایسے پر و بال مدینہ


تو چاہے تو مل جائے مجھے مرہم دیدار

دل ناوک ہجراں سے ہے غربال مدینہ


اب بھی جو فضاؤں میں تری گونج رہے ہیں

سُنوا دے وہ سرکار کے اقوال مدینہ


جب تک کہ تو جب نہ کریں رحمتِ عالم

ممکن نہیں سنبھلیں مرے احوال مدینہ


میں کاش پہونچتا جو تری پاک زمیں پر

کرتا جسد خاکی کو پامال مدینہ


تو آخری آرام گہِ سرور دیں ہے

کونین میں کب ہے تری امثال مدینہ


رکھتا ہے ادیب آج بھی امید رسائی

دل میں تراغم کیسے نہ لے پال مدینہ

 _______________


اتنا بڑا اعجاز دکھانا سب کے بس کی بات نہیں

اتنا بڑا اعجاز دکھانا سب کے بس کی بات نہیں

کنکریوں سے کلمہ پڑھانا سب کے بس کی بات نہیں


ممکن ناممکن کو بنانا سب کے بس کی بات نہیں

سورج کو واپس لوٹانا سب کے بس کی بات نہیں


ظلم و ستم کا سہ لینا تو ہوتا ہے آساں لیکن

بہر دعا پھر ہاتھ اٹھانا سب کے بس کی بات نہیں


ملک عرب کے بکھرے قبیلے جو سرکش اور ظالم تھے

انکا اک مرکز پر لانا سب کے بس کی بات نہیں


تئیس سال میں اکملت کی پا جانا خالق سے سند

ہم ہی نہیں کہتا ہے زمانہ سب کے بس کی بات نہیں


آکے ستارا برج فلک میں پتھر موم بناتا ہے

لیکن اس کا برج میں لانا سب کے بس کی بات نہیں


سب امکان رسائی میں ہیں مہر و مہ و انجم لیکن

عرش خدا پر آنا جانا سب کے بس کی بات نہیں


شافع محشر ہی چاہیں تو ان کی عنایت ہے ورنہ

مجرم کو جنت دلوانا سب کے بس کی بات نہیں


بات کوئی ہو اس کا زباں سے کہنا تو ہے سہل ادیب”

اس پہ عمل کر کے دکھلانا سب کے بس کی بات نہیں 

 _______________


حرص کے بندوں کو گنجینہ زرکافی ہے

حرص کے بندوں کو گنجینہ زرکافی ہے
ہم کو سرکار مدینہ کی نظر کافی ہے

دو نہ دربار رسالت میں زباں کو زحمت
ترجمانی کے لئے دیدہ تر کافی ہے

آتو جاتا ہے کوئی دم کے لئے دل کو قرار
ذکر طیبہ ترا اتنا ہی اثر کافی ہے

پھونک دینے کے لئے ہستئ خاشاک خودی
عشق احمد کا فقط ایک شہر کافی ہے

بخدا تذکرۂ رحمت عالم کے لئے
صبح تا شام نہ شب تاب سحر کافی ہے

یاد طیبہ میں گرے آنکھ سے جو دامن پر
نذر خالق کو وہی ایک گوہر کافی ہے

طالب خونِ جبیں ہیں تو مقامات بہت
سجدۂ شوق کو بس آپ کا در کافی ہے

یوں تو ادراک محمد نہیں آسان ادیب”
شہپر عشق کی پرواز مگر کافی ہے

 _______________


خدمت سرور کونین میں تحفہ لیکر

 خدمت سرور کونین میں تحفہ لیکر

سوئے طیبہ میں چلا قلب شکستہ لیکر


چاند تاباں ہے ترا نقش کف پا لیکر

تارے روشن ہیں ترے نور کا صدقہ لیکر


مرنے والوں کو حیات ابدی ملتی ہے

طیبہ ہم جاتے ہیں جینے کی تمنا لیکر


کر لیا رحمت خالق کو کرم پر مائل

میں نے سرکار مدینہ کا سہارا لیکر


اس کے ہی نور سے نبیوں کو ملی ہے عظمت

آئے تھے جس کی خبر نوح و مسیحا لیکر


ہم قیامت کی کڑی دھوپ سے پائیں گے نجات

سرپہ اے گنبد خضرا ترا سایہ لیکر


وادئ پاک مدینہ ترے ذروں کے عوض

کوئی کو نین بھی دیدے تو کروں کیا لیکر


اب کسی منظر کو نین پہ رکتیں ہی نہیں

مطمئن ہو گئیں آنکھیں ترا جلوہ لیکر


کیوں نہ دیں جان کہ مرقد میں سنا ہے ہم نے

آپ آئیں گے جمال رخ زیبا لیکر


جرت عرض نہیں ہے بہ تقاضائے ادیب”

چپ ہیں جبریل پیام شب اسری لیکر

 _______________


کیا حشر ہے کیا قصہ انعام و سزا ہے

کیا حشر ہے کیا قصہ انعام و سزا ہے

ہوگا وہی جو مرضئ محبوب خدا ہے


حیراں ہیں ملک عرش قدم چوم رہا ہے

کیا شان تری صاحب لولاك لما ہے


ایمان کا ماحول عقیدت کی فضا ہے

غنچوں کے لبوں پر بھی درودوں کی صدا ہے


غربت پہ کرم کرنا ہی خالق کی رضا ہے

یہ ذہن تو سرکار کی سیرت سے ملا ہے


کیا لطف و کرم حشر میں اے صل علیٰ ہے

ہر امتی اوڑھے ہوئے رحمت کی ردا ہے


سرکار کا چہرہ ہے کہ والشمس کی تفسیر

زلفیں ہیں کہ چھائی ہوئی رحمت کی گھٹا ہے


ہے کتنا معطر قد رعنائے محمد

اصحاب نے خوشبو سے انہیں ڈھونڈ لیا ہے


جس خاک کو ہے پائے رسالت نے نوازا

وہ خاک قدم سرمۂ ارباب وفا ہے


گزری ہوئی صدیاں بھی نہیں ہیں اثر انداز

جب ذکر مدینے کا کیا جائے نیا ہے


تو محرم اسرار تو ہی شاہد اقراء

کیا رفعت تقدیر تری غار حرا ہے


لگتا ہے قریب آگئے ہم شہر نبی کے

جذبات کی دنیا میں قیامت سی بپا ہے


گھبراؤ نہ اے عاصیو دو اس کی دہائی

جو اسم گرامی در جنت پہ لکھا ہے


میں قیدی زنجیر ہوس ہو نہیں سکتا

ہاتھوں میں مرے سلسلۂ آل عبا ہے


ہر در سے جہاں پائیگا فیضانِ رسالت

پھیلا ہوا اک سلسلۂ اہل ولا ہے


اب روک نہ پائے گی مجھے گردش ہستی

سرکار نے طیب میں مجھے یاد کیا ہے


لے آئی ہے جو گنبد خضری کی بلائیں

اترائی ادیب ” آج بہت موجِ صبا ہے 

 _______________


بگڑا ہوا بنتا ہے ہر کام مدینے میں

 بگڑا ہوا بنتا ہے ہر کام مدینے میں
پائیگا دل بسمل آرام مدینے میں

اے گردش روز و شب اتنا تو کرم کر دے

کعبے میں سحر گزرے اور شام مدینے میں


قسمت کے دھنی وہ ہیں جو دیکھ کے آئے ہیں

پھیلے ہوئے انوار اسلام مدینے میں


جو موت کہ آنی ہے بے نام و نشاں کرنے

وہ موت ہے جینے کا پیغام مدینے میں


تسلیم کہ ہے بیشک آغاز بر الیکن

ہوگا مری ہستی کا انجام مدینے میں


ملتی ہے جسے پی کر صدیقی ، وفاروق

آؤ نہ پئیں چل کر وہ جام مدینے میں


جو کفر سمجھتے ہوں تعظیم محمد کو

کہدے کوئی ایسوں کا کیا کام مدینے میں


دیوار و در مکہ ہیں ساتھ محمد کے

کعبے نے بھی باندھا ہے احرام مدینے میں


آیا ہے ادیب ” اپنے الزام جنوں سر پر

اے کاش یہ سر آتا الزام مدینے میں

 _______________


جو دل کو احساس نارسی دے وہ کرب غم ہے خوشی نہیں ہے

 جو دل کو احساس نارسی دے وہ کرب غم ہے خوشی نہیں ہے

فراق طیبہ میں جو بسر ہو وہ موت ہے زندگی نہیں ہے


پہنچ گئے ہیں جہاں پہ آقا مجالِ جبریل بھی نہیں ہے

یہ ہے مقام حبیب داور کمال پیغمبری نہیں ہے


دکھانا تاب و تواں کے جو ہر اٹھانا ہاتھوں پہ باب خیبر

ظہور اعجاز احمدی ہے شجاعت حیدری نہیں ہے


یہ دی ہے جبریل نے گواہی کہ ماہ سے لے کے تابہ ماہی

تمام خلقت ہے ہم نے دیکھی حضور کا مثل ہی نہیں ہے


یہ آفتاب حرا کے دم سے جہان میں روشنی ہے ورنہ

ہر ایک شئے کی بنا ہے ظلمت کسی میں تابندگی نہیں ہے


یہ بات ہے بندگی کی حاصل یہی رضائے خدا کی حامل

نہ جس میں عشق نبی ہو شامل وہ بندگی بندگی نہیں ہے


ادیب” کونین کو خدا نے انہیں کے ہے نور سے بنایا

نگاہ سرکار دو جہاں میں کوئی بھی شئے اجنبی نہیں ہے

 _______________


پھر محمد مجھے یاد آنے لگے

آدمی آدمیت سے جانے لگے

بربریت کے جوہر دکھانے لگے

موت سے زندگی کو ڈرانے لگے


پھر محمد مجھے یاد آنے لگے


دب گئی شور باطل سے حق کی صدا

چھا گئی ماہ کامل پہ کالی گھٹا

کفر کے فتنے پھر سر اٹھانے لگے


پھر محمد مجھے یاد آنے لگے


ہو چکا پھر سے صامت کلام خدا

کھو چلے اپنے معنی ورا ماورا

جہل کے پھر چمن لہلہانے لگے


پھر محمد مجھے یاد آنے لگے


توڑ کر شیشہ پھر عبد و معبود کا

چھوڑ کر اہلِ عالم صراط خدا

سر کو غیروں کے آگے جھکانے لگے


پھر محمد مجھے یاد آنے لگے


نعمت بے بہا بن گئی خواجگی

جس کو دیکھو ہے وہ طالب بندگی

اہلِ زر مفلسوں کو ستانے لگے


پھر محمد مجھے یاد آنے لگے


دیکھ کر ہر طرف نور چھایا ہوا

بخشش حق کا سیلاب آیا ہوا

دل کو ارمان خود اپنے بھانے لگے


پھر محمد مجھے یاد آنے لگے


پھر نظر ایک ماہ جمیل آ گیا

آس کا پھر اشاره سادل پا گیا

ولولے اپنے پھر جان پانے لگے


پھر محمد مجھے یاد آنے لگے


آسرے دل کے سارے جواں ہو گئے

اتنے ارما‌ بڑھے کارواں ہو گئے

اور تقاضے طلب کے ستانے لگے


پھر محمد مجھے یاد آنے لگے


یہ مہکتی فضا یہ مہکتی ہوا

یہ اشارے امیدوں کے صبر آزما

کیف و مستی کی دولت لٹانے لگے


پھر محمد مجھے یاد آنے لگے


جب بھڑکنے لگا جوش دیوانگی

اے ادیب” اٹھ کے جذبات عشق نبی

اور بھی دل کو وحشی بنانے لگے

پھر محمد مجھے یاد آنے لگے 

 _______________


سمت مکہ سے اٹھی جھوم کے رحمت کی گھٹا

سمت مکہ سے اٹھی جھوم کے رحمت کی گھٹا

آئے محبوب خدا آئے محبوب خدا


چشمۂ نور بها، ہر طرف پھیلی ضیا

ظلمت کفر گھٹی نور ایمان بڑھا

بقعۂ نور بنی سارے زمانے کی فضا


آئے محبوب خدا آئے محبوب خدا


ساقیا جام چلے جس سے کچھ کام چلے

مستی عشق بڑھے تیرا بھی نام چلے

کہدے مطرب سے کہہ دے چھیڑ خوشی کا نغمہ


آئے محبوب خدا آئے محبوب خدا


ارض مکہ کی قسم بختِ طیبہ کی قسم

گر کے بہت چیخ اٹھے رب کعبہ کی قسم

آج لائی ہے اثر بانئ کعبہ کی دعا


آئے محبوب خدا آئے محبوب خدا


یہ جہاں رقص میں ہے آسماں رقص میں ہے

آسماں چیز ہے کیا لامکاں رقص میں ہے

محفل نور میں ہر سمت ہے اک شور مچا


آئے محبوب خدا آئے محبوب خدا


مٹ گئی آفت شر چمکی تقدیر بشر

شرک و بدعت کا نہیں اب زمانے میں گزر

ڈھا کے باطل کے محل ڈالنے پھر حق کی بنا


آئے محبوب خدا آئے محبوب خدا


سیم و زر کانپ اٹھے بحرو بر کانپ اٹھے

قصر شاہی کے بھی بام و در کانپ اٹھے

رنگ لے آئی غریبوں کے دکھے دل کی صدا


آئے محبوب خدا آئے محبوب خدا


بے کسو! ناز کرو بے بسو! ناز کرو

قدر افلاس بڑھی مفلسو! ناز کرو

ہو گئی دور زمانے سے امیری کی بلا


آئے محبوب خدا آئے محبوب خدا


گمرہی ختم ہوئی اب نہ بھٹکے گا کوئی

پھر بھلا کیوں نہ بڑھے ہمت راہ روی

مل گیا مل گیا دنیا کو رہ حق کا پتہ


آئے محبوب خدا آئے محبوب خدا


سر بسجدہ ہے فلک دست بستہ ہیں ملک

ہے یہی شور بپا ، فرش سے عرش تلک

اٹھنے ہی کو ہے کوئی دم میں دوئی کا پردہ


آئے محبوب خدا آئے محبوب خدا


صدقے اے شانِ عطا مٹ گئی فکر جزا

اب مرے دل میں ادیب” کچھ نہیں خوف سزا

نعت کا دینے مجھے اپنے ہی ہاتھوں سے صلہ


آئے محبوب خدا آئے محبوب خدا 

 _______________


فریاد جو دل سے کی جائے مملو بہ اثر ہو جاتی ہے

فریاد جو دل سے کی جائے مملو بہ اثر ہو جاتی ہے

سینے میں جو ہوتی ہے دھڑکن طیبہ میں خبر ہو جاتی ہے


دنیا کی نگاہیں دیکھتی ہیں تب شکل محمد میں اس کو

تخئیل حسین قدرت جب ہمشکل بشر ہو جاتی ہے


اللہ رے کیف عشق نبی دیوانے کو یہ بھی یاد نہیں

کس وقت ہیں کھلتے گیسوئے شب کس وقت سحر ہو جاتی ہے


اے رحمت عالم کیا شئے ہے واللہ تمہاری شان کرم

ہر چند نہیں آتی ہے نظر محسوس مگر ہو جاتی ہے


ہے ارض و فلک کی ہستی کیا انسان و ملک کی گنتی کیا

سرکار جدھر ہو جاتے ہیں مخلوق ادھر ہو جاتی ہے


ملجاتا ہے جس کو قسمت سے تھوڑا سا بھی درد عشق نبی

پھر ہجر کی راتیں کیا شئے ہیں اک عمر بسر ہو جاتی ہے


لیتا ہے بنا کندن دل کو جو آتش عشق احمد سے

واللہ ادیب ” ایسے دل پر خالق کی نظر ہو جاتی ہے 

 _______________


Top Categories