madaarimedia

حاجت نہیں ہے مجھ کو کسی تاجدار کی

 حاجت نہیں ہے مجھ کو کسی تاجدار کی

میرے لیے بہت ہے غلامی مدار کی


نسبت جو مل گئی ہمیں زندہ مدار کی

یہ تو عطائے خاص ہے پروردگار کی


تقدیر کہکشاں کی طرح جگمگا اٹھی

چومی ہے جب سے خاک تیرے رہگزار کی


ٹھوکر سے تو نے بخشی ہے مردوں کو زندگی

کیا بات ہے مدار تیرے اختیار کی


طوفان خود ہی کشتی کنارے لگا گیا

گونجی صدا فضاؤں میں جب دم مدار کی


اہل طلب کے واسطے ہوتی ہیں کیمیا

قطب المدار خاک تمہارے دیار کی


جس نے تمام عمر نہ کھایا نہ کچھ پیا

محضر عجیب شان ہے اس روزہ دار کی
—-

Read more

کون کہتا ہے کہ کردار بہت کام آیا

کون کہتا ہے کہ کردار بہت کام آیا
حشر میں دامن سرکار بہت کام آیا

راستہ ملتانہ بھٹکے ہوئے انسانوں کو
عصبہ احمد مختار بہت کام آیا

ڈھونڈتی پھرتی ہیں دنیاکی مسرّت مجھ کو
آپ کا غم میرے سرکار بہت کام آیا

مل گئی آبلہ پائی کو ہماری معراج
وادئ بطحہ کا ہر خوار بہت کام آیا

وہ ہیں صدیق و عمر اور ہیں عثمان و علی
جن کا ہر جذبہ ایثار بہت کام آیا

مل گئی دین کے گلشن کو حیات ابدی
خون سبت شہ ابرار بہت کام آیا

خوف تھا غم تھا اندھیرا تھا مگر اے آقا
قبر میں آپکا دیدار بہت کام آیا

تونے محضر کو ہے پہنچادیا آقا کے قریب
تو میرے اے دل بیمار بہت کام آیا

Read more

کؤو چلا ہے بگو بگیچہ کؤو چلا پردیس رے

 کؤو چلا ہے بگو بگیچہ کؤو چلا پردیس رے

ہم تو ائبے آقا دیکھن تمہر و نوری دیس رے


اپنا ہوش نہ جگ کی چنتا حالت ہے مستانہ

ہم کا یہ سنسار کہت ہے اب تمہر و دیوانہ

پریت ما تمہری سدھ بدھ کھوئی بدلا اپنا بھیس رے


کؤو چلا ہے بگو بگیچہ کؤو چلا پردیس رے


آسمان پہ کیا چمکت ہے بھید نہ جانے کوئے

نور ملن کو نور سے جائے رہیا جگمگ ہوئے

انبر سے جبریل ہیں لائے مالک کا سندیس رے


کؤو چلا ہے بگو بگیچہ کؤو چلا پردیس رے


ڈولے کی کب تک آشاؤں کی دکھ ساگر ما نیا

آس لگائے نین بچھائے ہم تاکت ہیں ڈگریا
کو د چلے جو طیبہ نگر تو دل پر لاگے تھیں رے


کو وچلا ہے بگو ا نچہ کو وچلا پردیس رے


بس ہے وہی صدیق و عمر کا اور عثمان وعلی کا

غوث کا خواجہ کا پیارا ہے داس ہے زندہ ولی کا
مانتا ہے دل سے سیدنا جو تمبر و آدیس رے

کو وچلا ہے بگوانگیچہ کو وچلا پر دلیس رے


نین ما گھومت ہے کب سے تمبری نیک دوریا

چل محضر تجھ کو ہیں بلاوت آقا طیبہ نگریا
جانے بیر یا کب طیبہ سے لائے یہ سندیس رے

کو وچلا ہے بگوانگیچہ کو وچلا پردیس رے
 ——

پیارے نبی مورے پیارے نبی جی

 تمبر و در نورانی جالی لاگے سہانی

پیارے نبی مورے پیارے نبی جی


پورب سے اٹھ کے کالی گھٹائیں پچھم میں جائیں

کہیو بیریا ہمرے نینوا چین نہ پائیں

تمہری برہا ما بر سے موری آنکھوں سے پانی


پیارے نبی مورے پیارے نبی جی


کب سے دکھی ہے اپنا جیروا کب تک رہے گا

بیری جگت ما اس دکھیا کی کون سنے گا

کس کو جاکے سناؤں میں اپنی کہانی


پیارے نبی مورے پیارے نبی جی


طیبہ نگر کا نام سنے تو آنسو بہائیں

تمہری گلی کے ذروں پہ اپنی جان لٹائیں

تمہرے در کے غلاموں کی ہے یہ نشانی


پیارے نبی مورے پیارے نبی جی


وہ بیری تو اپنی اگن میں جلتا رہے گا

جائے گا دوزخ میں ایسوں کو مولیٰ جنت نہ دے گا

تمہری اس جگ ما جس نے بات نہ مانی


پیارے نبی مورے پیارے نبی جی


طیبہ ڈگر پر کب سے ہوں بیٹھا آس لگائے

اس جیون ما کاش اے محضر وہ دن بھی آئے

بیتا بچپن نہ بیتے یوں ہی اپنی جوانی


پیارے نبی مورے پیارے نبی جی
 ——

کیسے آؤں میں طیبہ نگریا

 کب سے ترست ہے موری نجریا

کیسے آؤں میں طیبہ نگریا


نور والے کی دھرتی پہ جاکے

کہنا یوں چاند اے آمنہ کے

راہ روکے ہے بیرن اندھر یا


کیسے آؤں میں طیبہ نگریا


کیا کہیں جو بتھا ہے ہماری

دیکھ لے جو دشا ہے ہماری

کہیو آقا سے اوری بیریا


کیسے آؤں میں طیبہ نگریا


چین پل بھر نہ پاوت ہیں نینا

نیر ایسے بہاوت ہیں نینا

جیسے ساون ما بر سے بدریا


کیسے آؤں میں طیبہ نگریا


ہے نر ادھار سانسوں کا جیون

آقا دیکھے بنا تمبر و آنگن

بیت جائے نہ یوں ہی عمریا


کیسے آؤں میں طیبہ نگریا


جیرا بیا کل ہے ترست ہے نینا

تارے گن گن کے بیتت ہے رینا

کیا بلیہو نہ اپنی دوریا


کیسے آؤں میں طیبہ نگریا


دکھ کے سورج سے بیا کل ہے محضر

درد کی دھوپ چھائی ہے سر پر

ڈال دو اپنی نوری چدریا


کیسے آؤں میں طیبہ نگریا
 ——

تمہر و سہارا ہے نبی جی تمبر و سہارا ہے

 ندیا گہری نیا ٹوٹی دور کنارا ہے

تمہر و سہارا ہے نبی جی تمبر و سہارا ہے


گیت سنائیں کس کومن کے میت ہو تم ہی سب دکھین کے

تمہرے سوا اے شاہ مدینہ کون ہمارا ہے


تمہر و سہارا ہے نبی جی تمہر و سہارا ہے


چارو اور ہیں بادل کالے ایسے میں کس کو کون سنبھال لے

پاپوں کی سن کی پروواہی من دکھیارا ہے


تمہر و سہارا ہے نبی جی تمہر و سہارا ہے


وا کا من کہی پر پیتائے کاسے دیا کی آس لگائے

وہ دکھیا را جس کا بیری جیون دھارا ہے


تمہر و سہارا ہے نبی جی تمہر و سہارا ہ


مشکل میں ہوں کیسے بسر ہو اب تو کرم کی ایک نظر ہو

گردش میں اے رحمت والے اپنا ستارا ہے


تمہر و سہارا ہے نبی جی تمہر و سہارا ہے


اپنے جو تھے سو بیگانے ہیں راہ کٹھن ہم انجانے ہیں

جس کا جگ ما کوئی نہیں ہے اس نے پکارا ہے


تمہر و سہارا ہے نبی جی تمہر و سہارا ہے


مجبوری کی سخت گھڑی ہے بپتا کی دیوار کھڑی ہے

ورنہ دور رہے طیبہ سے کس کو گوارا ہے


تمہرو سہارا ہے نبی جی تمہر و سہارا ہے


بپتا سے محضر کو نکالو اس کو بھی اپنا داس بنالو

دو جگ اس کے پاؤں تلے ہیں جو بھی تمہارا ہے


تمبر و سہارا ہے نبی جی تمہر و سہارا ہے
 ——

تو میں نے نعت پڑھی ہے

 جب بھی کسی منزل پہ دیکھا اپنے کو ناکام

تو میں نے نعت پڑھی ہے


الجھے بلاؤں میں یوں ہم ہیں ایک ہے دل اور لاکھوں غم ہیں

جب بھی دیکھا گھیرے ہوئے ہیں رنج و غم و آلام


تو میں نے نعت پڑھی ہے


یاد مدینہ دل میں بسی ہے ورد زباں بس ذکر نبی ہے

جب بھی تصور میں لہرائی ہے طیبہ کی شام


تو میں نے نعت پڑھی ہے


ساری مصیبت دور ہوئی ہے فکر جہاں کافور ہوئی ہے

نام محمد سے جب دل نے پایا ہے آرام


تو میں نے نعت پڑھی ہے


آپ کا جب کوئی ذکر سنائے آنکھ ہماری تر ہو جائے

پیارے نبی کا جب بھی کسی کے آیا زباں پہ نام


تو میں نے نعت پڑھی ہے


تیرا تڑپنا رنگ ہے لایا چل محضر آقا نے بلایا

طیبہ سے جب لوٹنے والا لایا یہ پیغام


تو میں نے نعت پڑھی ہے
 ——

کیسا پیارا نبی کا ہے بچپن

 فرش پر فخر انس و جاں آئے

عرش اعظم کے میہماں آئے

وجہ تخلیق دو جہاں آئے

رشک خلد آمنہ کا ہے آنگن


کیسا پیارا نبی کا ہے بچپن


جس سے کونین، جگمگائیں گے وہ دیا چاہئے حلیمہ کو

دونوں عالم میں سرخ روئی کا واسطہ چاہئے حلیمہ کو

آج گودی میں رب کا ہے محبوب اور کیا چاہئے حلیمہ کو

اس سواری کے اب بھی ہیں چرچے جس سواری پہ آپ تھے بیٹھے

جب حلیمہ کے گاؤں میں پہنچے بھر گئے بوڑھی بکریوں کے بھی تھن


کیسا پیارا نبی کا ہے بچپن


چہرۂ آسمان سورج کی اپنے ماتھے سجائے ہے بندیا

مانگ میں کہکشاں تو اوڑھے ہے سر پہ قوس قزح کا دوپٹہ

منظر کائنات ہے پہنے رنگ وانوار کا حسیں جوڑا

ہے سبھی کے لئے یہ آسائش یہ زمیں آسماں کی زیبائش

ہے اسی واسطے یہ آرائش جو بنی کائنات ہے دلہن


کیسا پیارا نبی کا ہے بچپن


یوں تجارت کے واسطے آقا چل دئے ملک شام کی جانب

یہ سلیقہ بھی سیکھ لے دنیا چل دئے ملک شام کی جانب

چاند تارے بھی لیکے نوری ردا چل دئے ملک کی شام کی جانب

دھوپ میں ریت پر جو وہ گذرے ابر کے شامیانے ساتھ چلے

کہا راہب نے یہ تو وہ گل ہیں جس سے مہکیں گے دو جہاں کے چمن


کیسا پیارا نبی کا ہے بچپن


میرے پیارے حضور بچپن میں کھیل سے دور دور رہتے تھے

دیکھئے تو قصور والوں میں رہ کے بھی بے قصور رہتے تھے

کسی حالت میں بھی رہیں لیکن اپنے رب کے حضور رہتے تھے

ان کے پاؤں کی ہے جہاں پے چل خار کے فرش بن گئےمخمل

وہ عرب میں ببول کے جنگل عاشقوں کے لئے بنے گلشن


کیسا پیارا نبی کا ہے بچپن


آج عاجز ہے خضر کا محضر علم وفن آمنہ کے آنگن میں

علم و حکمت کا ایک دریا ہے موجزن آمنہ کے آنگن میں

ناز خالق کو ہے وہ آیا ہے گلبدن آمنہ کے آنگن میں

خوش ہیں آج آمنہ و عبد اللہ گھر پہ آئے ہیں خضر اور موسیٰ

آج جبریل بھی ہیں بے پردہ اٹھ گئی سرحق سے ہے چلمن

کیسا پیارا نبی کا ہے بچپن

 ——

بس گئی خضری کی تصویر مری آنکھوں میں

 بس گئی خضری کی تصویر مری آنکھوں میں

ہے مرے خواب کی تعبیر مری آنکھوں میں


چاہوں جب گنبد خضری کا نظارا کر لوں

کاش پیدا ہو وہ تاثیر مری آنکھوں میں


دیکھا جب گنبد خضری تو یہ محسوس ہوا

جیسے ہو حسن کی جاگیر مری آنکھوںمیں


اب پھٹکتا ہی نہیں پاس مرے رجس گناہ

دیکھ کر نقشہ تطہیر مری آنکھوں میں


یہ عمر کہتے ہیں کیسے نہ کہوں میں آقا

ہے بلال آپ کی توقیر مری آنکھوں میں


یہ کہیں ناوک دیدار مدینہ تو نہیں

چھتا رہتا ہے کوئی تیر مری آنکھوں میں


سلسلہ عشق رسالت سے ہے جس کا محضر

آنسؤوں کی ہے وہ زنجیر مری آنکھوں میں
 ——

جنت کی دل نشیں بہارو میں کھو گئے

 جنت کی دل نشیں بہارو میں کھو گئے

طیبہ کے جاں فروز نظاروں میں کھو گئے


لکھی بلندیاں تھیں انہیں کے نصیب میں

جو مسجد نبی کے منارو میں کھو گئے


دیوانوں نے جو پالیا طیبہ کا گلستاں

چوما گلوں کو اور کبھی خاروں میں کھو گئے


جب یاد آگئی کبھی زید و بلال کی

کچھ دیر ہم بھی درد ماروں میں کھو گئے


جن کی بلندیوں پہ فرشتوں کو رشک تھا

وہ عظمت نبی کے کنارو میں کھو گئے


وہ جنت البقیع کی اللہ ری کیفیت

ہوش و حواس نوری مزاروں میں کھو گئے
 ——

Top Categories