madaarimedia

پسینہ بھی مرے آقا کا رشک مشک و عنبر ہے

 پسینہ بھی مرے آقا کا رشک مشک و عنبر ہے
گزر جائیں وہ جس رستے سے وہ رستہ معطر ہے

قدم فخر دو عالم کا ترے سینے کے اوپر ہے

مدینے کی زمیں تیرا بڑا اعلیٰ مقدر ہے


جہاں قرآن حق اترا جہاں فرمان حق پھیلا

وہ کعبہ کا نصیبہ تھا یہ طیبہ کا مقدر ہے


مٹائیں گے وہی تشنہ لبی ہم تشنہ کاموں کی

بہایا انگلیوں نے جن کی رحمت کا سمندر ہے


رخ پر نور بے پردہ ہے آنگن میں حلیمہ کے

یہ منظر دیکھ کر حیرت زدہ ماہ منور ہے


چلے تھے قتل کرنے کے لئے اعجاز تو دیکھو

نبی کو دیکھ کر خم ہو گیا فاروق کا سر ہے


خدا نے سارے اوصاف حمیدہ رکھ دئے اس میں

اسد اللہ ہے جو مرتضی ہے اور حیدر ہے


سکندر کی شہنشاہی بھی یہ کہتی ہے اے محضر

محمد کی غلامی شان سلطانی سے بڑھ کر ہے
 ——

دل اک پل آرام نہ پائے وہ بھی اتنی رات گئے

 دل اک پل آرام نہ پائے وہ بھی اتنی رات گئے

رہ رہ کے طیبہ یاد آئے وہ بھی اتنی رات گئے


رحمت عالم آپ کی یادیں کام آجاتی ہیں ورنہ

کون ہمارا جی بہلائے وہ بھی اتنی رات گئے


دن کے اجالے شرماتے ہیں ان نورانی گلیوں سے

آنکھوں میں طیبہ کھینچ آئے وہ بھی اتنی رات گئے


عشق کا مارا دل بے چارہ جب کوئی اس کا بس نہ چلا

ہجر نبی میں اشک بہائے وہ بھی اتنی رات گئے


عالم تنہائی میں آقا تیرا تصور تیرا جمال

سوئے احساسات جگائے وہ بھی اتنی رات گئے


اپنے کافوری ہونٹوں سے چومے قدم یا دے آواز

کس طرح جبریل جگائے وہ بھی اتنی رات گئے


دل میں کسک پیدا ہوتی ہے آنکھیں نم ہو جاتی ہیں

جب محضر تو نعت سنائے وہ بھی اتنی رات گئے
 ——

پیاس سے ہیں جاں بلب کچھ حوصلہ دو مصطفیٰ

 پیاس سے ہیں جاں بلب کچھ حوصلہ دو مصطفیٰ

انگلیوں سے فیض کے چشمے بہا دو مصطفیٰ


کثرت غم میں بھی جینے کی ادا دو مصطفیٰ

درد اپنا دل کے گوشوں میں بسا دو مصطفے


خانۂ بے نور ہے اس کو ضیاء دو مصطفے

شمع اپنے عشق کی دل میں جلا دو مصطفى


جس سے آقائے زمانہ بن گئے حضرت بلال

ایسا جذبہ عشق کا بہر خدا دو مصطفى


گل نہ کر پائیں جسے ظلم و جفا کی آندھیاں

اک چراغ ایسا مرے دل میں جلا دو مصطفیٰ


گر ہی کی ظلمتوں نے گھیر رکھا ہے مجھے

ان اندھیروں میں ذرا سا مسکرا دو مصطفیٰ


میں کسی کے بھی سہارے کا تمنائی نہیں

بے سہارا ہوں مجھے تم آسرا سے دو مصطفى


محو کرکے آنکھوں سے ہر منظر کونین کو

اپنی صورت کا مجھے شیدا بنادو مصطفى
 ——

جذبات محبت کے اسباب بہم کرنا

 جذبات محبت کے اسباب بہم کرنا

آنکھوں گھٹا بر سے تب نعت رقم کرنا


ہمدرد نہیں اپنا کوئی بھی سر محشر

سر کار کرم کرنا سر کار کرم کرنا


کچھ پھول سجا لے نا آقا کی محبت کے

اپنے دل ویراں کو یوں رشک ارم کرنا


ترسی ہوئی آنکھوں کی بس ایک تمنا ہے

سرکار عطا ان کو دیدار حرم کرنا


سرکار کی سیرت نے یہ درس دیا ہم کو

دنیا کے لئے یارو سر اپنا نہ خم کرنا


ہے دل کو یقیں آقا دامن میں چھپائیں گے

پھر کیا جو زمانے کی عادت ہے ستم کرنا
 ——

خلاف آداب عشق ہوگا نہ دیکھ نظریں اٹھا اٹھا کے

 خلاف آداب عشق ہوگا نہ دیکھ نظریں اٹھا اٹھا کے

یہ جلوہ گاہے حبیب حق ہے یہاں پہ چل سر جھکا جھکا کے


فراق طیبہ میں کیا بتائیں نہ جانے کتنی گذاری راتیں

چراغ امید و بیم میں نے جلا جلا کے بجھا بجھا کے


ملی جو عشق نبی کی دولت یہ میرے آقا کی ہے عنایت

اسی لئے دل کو رکھ رہا ہوں ہر اک نظر سے بچا بچا کے


ہے سر میں عشق نبی کا سودا نگاہ میں ہے جمال خضریٰ

چلیں گھٹائیں ہیں سمت طیبہ کسی کے دل کو رلا رلا کے


ہے سامنے روضہ منور مگر ہے پہرہ نگاہ و دل پر

ہے دیکھتا جالیوں کو زائر نظر کو اپنی چرا چرا کے


ہیں جان و دل آپ کے حوالے حضور ہم کو یہ دنیا والے

سمجھ کے مٹی کا اک گھروندہ بگاڑتے ہیں بنا بنا کے


چلیں اشاروں پہ چاند سورج ہر ایک ذرے پہ ہے حکومت

اے میرے آقا یہ دونوں عالم فدا ہیں تیری ادا ادا کے


یہ دین وایمان کے لٹیرے جو بس چلے گا تو لوٹ لیں گے

متاع عشق نبی کو محضر رکھو جہاں سے بچا بچا کے
 ——

آگئے آگئے مصطفى آگئے

 

ابر اخلاص کے ہر طرف چھا گئے

آگئے آگئے مصطفى آگئے


اوس و خزرج کے دل کی کدورت مٹی

عالم کفر میں پڑگئی کھل بلی

رومی اور پارسی سن کے گھبرا گئے


آگئے آگئے مصطفیٰ آگئے


آفتاب عرب سے جو پھوٹی کرن

جگمگانے لگی انجمن انمن

دل جو تاریک تھے روشنی پاگئے


آگئے آگئے مصطفیٰ آگئے


اس جہاں سے بلندی و پستی مٹی

اور زمیں آسماں کے گلے مل گئی

ہر طرف پرچم امن لہرا گئے


آگئے آگئے مصطفیٰ آگئے


مومنوں کو ملا قرب اللہ کا

اولیاء کو ملی دولت بے بہا

انبیاء ورسل مدعا پاگئے


آگئے آگئے مصطفیٰ آگئے


غم کی تاریکیوں کو ملی روشنی

بھیگی آنکھوں سے محضر جو آواز دی

میری آنکھوں کے آنسو جلا پاگئے


آگئے آگئے مصطفیٰ آگئے
 ——

اے مرے دل یہ بتا حال ترا کیا ہوگا

 اے مرے دل یہ بتا حال ترا کیا ہوگا

سامنے آنکھوں کے جب گنبد خضری ہوگا


وہ جہاں نور شب و روز برستا ہوگا

ہاں وہی جنت دل گنبد خضری ہوگا


خواب میں جس نے بھی سرکار کو دیکھا ہوگا

خواب جھوٹا نہیں ہو سکتا وہ سچا ہوگا


جس نے آقا کے پیسنے کو لگایا ہوگا

نسل کا اس کی ہر اک فرد مہکتا ہوگا


رب نے تخلیق کئے جس کے لئے دونوں جہاں

سوچئے کیا کوئی اس کے لئے پردہ ہوگا


بر میں راج اندھیروں کا تو ہوگا لیکن

ان کے آنے سے اجالا ہی اجالا ہوگا


سچ بتا کیسے تھے آقا مرے بدر کامل

تونے تو سرور کونین کو دیکھا ہوگا


غم اسے اپنی یتیمی کا نہ ہوگا محضر

جس کے سر پر مرے سرکار کا سایہ ہوگا
 ——

جو کوئی غوث تو کوئی مدار ہوتے ہیں

 جو کوئی غوث تو کوئی مدار ہوتے ہیں

غلام سرور دیں باوقار ہوتے ہیں


یہ کہکشاں یہ فلک اور یہ مہر و ماه نجوم

ہزار جان سے تم پر نثار ہوتے ہیں


بغیر اذن لگاتے نہیں ہیں منہ سے شراب

تمہارے مست بڑے ہوشیار ہوتے ہیں


یقین رکھتے ہیں جو ان کی نا خدائی پر

وه لوگ بحر مصیبت سے پار ہوتے ہیں


ہے ان کی آنکھوں کا ہر قطرہ گوہر نایاب

فراق طیبہ میں جو اشک بار ہوتے ہیں


جو ظلم ڈھاتی کسی امتی پہ ہے دنیا

مرے حضور بہت بے قرار ہوتے ہیں


جو سر پہ رکھتے ہیں نعلین مصطفیٰ محضر

قسم خدا کی وہی تاجدار ہوتے ہیں
 ——

تجس میکدے کا ہے تمنا ہے نہ پینے کی

 تجس میکدے کا ہے تمنا ہے نہ پینے کی

مرے ہمدم کئے جا مجھ سے بس باتیں مدینے کی


بچھونا ہے چٹائی کا شکم پر ہیں بندھے پتھر

غریبوں کو ادا سکھلا گئے سرکار جینے کی


ترے چہرے کی تابانی سے مہر و ماہ روشن ہیں

دو عالم کو معطر ہے کئے خوشبو پسینے کی


مشام جان و دل اپنے معطر کرتے رہتے ہیں

گلابوں میں بھی ہے خوشبو محمدؐ کے پسینے کی


بلائے موج غم نے ہر طرف سے گھیر رکھا ہے

خدا را آبرو رکھ لیجئے میرے سفینے کی


نبی سے پایا ہے سینہ بسینہ جو بزرگوں نے

ہمارے سینے میں بھی آرزو ہے اس دینے کی


ہے اس میں سرور عالم کی الفت کی مہک محضر

کوئی قیمت لگائے اب مرے دل کے نگینے کی
 ——

دونوں عالم میں جو کام آئے کچھ ایسا لکھیں

دونوں عالم میں جو کام آئے کچھ ایسا لکھیں

آئیے احمد مرسل کا قصیدہ لکھیں


اب کے سوچا ہے کوئی خط جو مدینہ لکھیں

حال دل لکھیں حضوری کی تمنا لکھیں


جس کو اللہ نے محبوب لکھا ہے اپنا

کچھ سمجھ میں نہیں آتا اسے ہم کیا لکھیں


غرق کردے اسے طوفان یہ ممکن ہی نہیں

جس سفینے پہ بھی ہم نام نبی کا لکھیں


آگئے رحمت کل اہل قلم سے کہدو

جسے لکھتے تھے وہ بطحہ اسے طیبہ لکھیں


تاب پرواز تخیل نہ قلم میں طاقت

ہوش گم کردہ ہیں کیا ساکن سدری لکھیں


تیرے آقا نے تجھے یاد کیا ہے محضر

کاش خط میں مجھے یہ اہل مدینہ لکھیں 
 ——

Top Categories