madaarimedia

عرش پر نور مصطفی دیکھا

 عرش پر نور مصطفی دیکھا

آئینہ گرنے آئینہ دیکھا


ان کو دیکھا تو بول اٹھے جبریل

کوئی تم سا نہ دوسرا دیکھا


رخصتی جب ہوئی مدینے سے

ہم نے مڑ مڑ کے راستہ دیکھا


نور خضرہ سے لو لگائی ہے

جب بھی دل کا دیا بجھا دیکھا


جب مدینے کی یاد آئی ہے

دل کا عالم عجیب سا دیکھا


خوش ہے آقا پہ کر کے سب قرباں

ایک ضعیفہ کا حوصلہ دیکھا


دی مدینے سے آپ نے تسکین

دل جو میرا کبھی دکھا دیکھا


اپنے گھر میں حلیمہ بی بی نے

چاند جھولے میں جھولتا دیکھا


آج کی صبح آئے وہ محضر

جن کا نبیوں نے آسرا دیکھا
 ——

دوری طیبہ ہے کیا اور حاضری کیا چیز ہے

 دوری طیبہ ہے کیا اور حاضری کیا چیز ہے

ہم سے پوچھو موت کیا ہے زندگی کیا چیز ہے


دل میں جس کے ہے غم طیبہ یہ اس سے پوچھئے

بے کسی کہتے ہیں کس کو بے بسی کیا چیز ہے


اپنی آنکھیں ان کے تلووں سے ہیں ملتے جبرئیل

ہے خدا بھی ان کا طالب آدمی کیا چیز ہے


حضرت صدیق اکبر ہی بتائیں گے یہ راز

دولت دنیا ہے کیا اور مفلسی کیا چیز ہے


قتل کی نیت سے آئے اور عادل بن گئے

کھل گیا سب پر کہ مرضی نبی کیا چیز ہے


ایک حبشی کو دو عالم کی حکومت مل گئی

دیکھ لے دنیا کہ بندہ پروری کیا چیز ہے


کچھ دھڑکتا تھا مرے سینے میں جب طیبہ میں تھا

سوچتا ہوں وقت رخصت رہ گئی کیا چیز ہے


یہ رکوع محضر یہ سجدے یہ قیام اور یہ قعود

سب ادائے مصطفیٰ ہے بندگی کیا چیز ہے
 ——

ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ محبوب خدا ہو

 ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ محبوب خدا ہو

لیکن یہ خدا جانے کہ تم کون ہو کیا ہو


کچھ مجھ کو بھی سرکار کے صدقہ میں عطا ہو

سرکار مرے آپ کی عترت کا بھلا ہو


قرآن بھی جب کرتا ہے توصیف محمد

پھر کیسے بھلا نعت کا حق ہم سے ادا ہو


وہ کیوں ہو کسی نعمت کونین کا طالب

سرکار مدینہ کے جو ٹکڑوں پہ پلا ہو


جلتے ہوئے سورج کی شعاعوں کا اثر کیا

جب سایہ فگن دامن محبوب خدا ہو


بس تھوڑی سی خاک در سرکار اڑا لا

اتنا تو کرم مجھ کبھی باد صبا ہو


ممکن ہی نہیں اس کو جلا پائے جہنم

جو آتش فرقت میں مدینے کی جلا ہو


جبریل کو کس طرح سے عرفان ہو تیرا

سمجھے وہ تجھے جو ترے رتبے سے سوا ہو


سرکار اسے آپ کا کہتی ہے یہ دنیا

محضر سے یہ زنجیرۂ نسبت نہ جدا ہو
 ——

شاہ کار قدرت ہے آمنہ کی گودی میں

 شاہ کار قدرت ہے آمنہ کی گودی میں

دو جہاں کی رحمت ہے آمنہ کی گودی میں


آدمی پہ بھاری ہے لمحہ لمحہ ہستی کا

وقت کی ضرورت ہے آمنہ کی گودی میں


ظلمت جہالت کا کیوں نہ دل دھڑک اٹھے

نور علم وحدت ہے آمنہ کی گودی میں


جلوہ ریزیاں جس کی ہیں جبینِ آدم میں

حق کی وہ امانت ہے آمنہ کی گودی میں


آج ہوگیا پورا سلسلہ نبوت کا

خاتم رسالت ہے آمنہ کی گودی میں


لگتا ہے سمٹ آئی کائنات مرکز پر

آج کتنی وسعت ہے آمنہ کی گودی میں


عرش و فرش سب اس کے دائرے کے اندر ہیں

نقطۂ محبت ہے آمنہ کی گودی میں


حسن یوسفی جس کا اک جمیل پر تو ہے

وہ حسین صورت ہے آمنہ کی گودی میں


زندگی کو جینے کا راستہ ملا محضر

حاصل شریعت ہے آمنہ کی گودی میں
 ——

اب دل کی تمنا ہے مدینے کی طرف چل

 اب دل کی تمنا ہے مدینے کی طرف چل

اک حشر سا برپا ہے مدینے کی طرف چل


دنیا ستم آرا ہے مدینے کی طرف چل

کوئی نہیں اپنا ہے مدینے کی طرف چل


روضہ کا وہ سرکار کے پر نور نظاره

نظروں میں مچلتا ہے مدینے کی طرف چل


اس در پہ سکوں پائے گا کیوں اے دلِ مضطر

دنیا میں بھٹکتا ہے مدینے کی طرف چل


دنیا کے نظاروں سے بہلتا ہی نہیں دل

نظروں کا تقاضہ ہے مدینے کی طرف چل


ہر سمت سے آتی ہیں درودوں کی صدائیں

ماحول کا منشاء ہے مدینے کی طرف چل


کیوں محضر علی خانۂ صابو میں پڑا ہے

آقا نے بلایا ہے مدینے کی طرف چل
 ——

جو دل میں نبی کی محبت نہیں ہے

 جو دل میں نبی کی محبت نہیں ہے
تو کوئی عبادت عبادت نہیں ہے

ہوا ہے جو دیوانہ عشق نبی میں

اسے ہوش کی پھر ضرورت نہیں ہے


مدد میرے آقا کہ دریائے غم سے

کوئی پار اترنے کی صورت نہیں ہے


دل و جاں محمد کی صورت پہ صدقہ

کوئی ایسی خلقت میں صورت نہیں ہے


زمین و فلک چاند سورج ستارے

محمد کی کس پر حکومت نہیں ہے


یہ فرمادیں آقا مدینہ بلا کے

تجھے واپسی کی اجازت نہیں ہے


در مصطفیٰ پہنچ جائے محضر

سوا اس کے اب کوئی حسرت نہیں ہے
 ——

آئے شاہ امم آئے شاہ امم

 دور کرنے زمانے سے ظلم و ستم

آئے شاہ امم آئے شاہ امم

خشک دھرتی پہ برساتے ابر کرم

آئے شاہ امم آئے شاہ امم


شرک و بدعت کا جب ہر طرف راج تھا

ماہ و انجم کو سمجھا گیا دیوتا

جب خدا بن گئے پتھروں کے صنم


آئے شاہ امم آئے شاہ امم


قصر کسری پہ طاری ہوا زلزلہ

سر بسجدہ ہوئے پتھروں کے خدا

کہہ اٹھے جھوم کر عرش ولوح و قلم


آئے شاہ امم آئے شاہ امم


راج جبر و ستم کا جہاں سے مٹا

مل گئی گمرہی کو صراط خدا

ہو گئے ہر مصیبت سے آزاد ہم


آئے شاہ امم آئے شاہ امم


آج علم و فضیلت کو جاں مل گئی

آج قرآن حق کو زباں مل گئ

آج کی صبح توڑا جہالت نے دم


آئے شاہ امم آئے شاہ امم


مٹ چکی تھی زمانے سے انسانیت

نام باطل کا محضر تھا حقانیت

وہ تو کہیے خدا نے کیا یہ کرم


آئے شاہ امم آئے شاہ اممa
 ——

جھکی آقا کے قدموں پہ جبیں معلوم ہوتی ہے

 جھکی آقا کے قدموں پہ جبیں معلوم ہوتی ہے

یہ رفعت قسمت روح الامیں معلوم ہوتی ہے


محبت آپ کی دل میں مکیں معلوم ہوتی ہے

مری تقدیر بھی سدریٰ نشیں معلوم ہوتی ہے


جہاں پہ رکھ دئے ہیں پاؤں سرکار رسالت نے

زمیں وه نازش عرش بریں معلوم ہوتی ہے


کرم بے کس پہ فرما دیجئے آقا کہ طیبہ تک

رسائی کی کوئی صورت نہیں معلوم ہوتی ہے


دیار نور سے نزدیک تر ہم آگئے شاید

جھکی فرط عقیدت سے جبیں معلوم ہوتی ہے


اسی سے ماہ وانجم اکتساب فیض کرتے ہیں

مدینے کی زمیں بھی کیا زمیں معلوم ہوتی ہے


نگاہ غور سے دیکھو تو کوئی بھی عبادت ہو

ادائے رحمۃ اللعالمیں معلوم ہوتی ہے


کرم یہ نسبتِ سرکار کا ہے جو تجھے محضر

مدینے کی ہر اک شے دل نشیں معلوم ہوتی ہے
 ——

وہ گیسو احمد معنبر معنبر

 وہ گیسو احمد معنبر معنبر

مدینے کی گلیاں معطر معطر


مدینے میں ہے چشم و دل کا یہ عالم

مجلہ مجلہ منور منور


جسے سن کے کلمہ پڑھیں سنگریزے

وہ ہے گفتگوئے موثر موثر


رسول معظم کے آنے سے پہلے

تھا ماحول کتنا مکدر مکدر


تلاش دیار نبی میں پھرا ہوں

بیاباں بیاباں سمندر سمندر


ہوئی جس کی تخلیق ہے اول اول

وہی ذات عالی موخر موخر


ہے آنکھوں میں محضر جمال مدینہ

بنا اب ہمارا مقدر مقدر
 ——

بے سہارا تھے ہم آسرا مل گیا

 بے سہارا تھے ہم آسرا مل گیا

یعنی دامان خیر الورى مل گیا


اب کسی رہنما کی ضرورت نہیں

مجھ کو سرکار کا نقش پا مل گیا


میری آوارہ پائی ہوئی مطمئن

جب سے شہر حبیب خدا مل گیا


کم ہے جو ناز قسمت پہ امت کرے

باعث نازش انبیاء مل گیا


کیا کہے بد نصیبی ابو جہل کی

کوئی پوچھے عمر سے کہ کیا مل گیا


سو گئے مطمئن ہو کے شیر خدا

جب انہیں بستر مصطفیٰ مل گیا


ہیں غریبوں کی جھرمٹ میں جلوہ فگن

ہم کو آقا کا محضر پتہ مل گیا
 ——

Top Categories