madaarimedia

علاج ہر بلائے غم ہیں کملی اوڑھنے والے

 علاج ہر بلائے غم ہیں کملی اوڑھنے والے

مرے مونس مرے مرے ہمدم ہیں کملی اوڑھنے والے


کرم کی اک نظر کر دیجئے صدقہ نواسوں کا

ستم دنیا کے اب پیہم ہیں کملی اوڑھنے والے


ہوئے ہیں منعکس حسن وقبا کے زاوئے جس میں

وہی آئینہ عالم ہیں کملی اوڑھنے والے


ز آدم تا بعیسی ہر نبی نے یہ شہادت دی

خدا کے بعد بس اعظم ہیں کملی اوڑھنے والے


اسی در پر بلا لیجے خدا را اب تو محضر کو

جہاں سب کی جبینیں خم ہیں کملی اوڑھنے والے
 ——

ہر اک نبی نے ان کا کیا احترام ہے

 ہر اک نبی نے ان کا کیا احترام ہے

کتنا بلند میرے نبی کا مقام ہے


منکر نکیر کر نہ سکے پھر کوئی سوال

پایا جو میرے لب پہ محمد کا نام ہے


ابھرے جو آفتاب تو حیرت کی بات کیا

ہاتھوں میں ان کے دونوں جہاں کا نظام ہے


میں پڑھ رہا ہوں نعت نبی اور بزم میں

جاری ہر ایک لب پہ درود و سلام ہے


انوار صبح ہوتے ہیں سو جان سے فدا

کتنی حسین ارضِ مدینہ کی شام ہے


اے گردش زمانہ نہ محضر سے تو الجھ

معلوم ہے تجھے یہ نبی کا غلام ہے
 ——

نہیں دنیا میں ہے کوئی ہمارا یا رسول اللہ

 نہیں دنیا میں ہے کوئی ہمارا یا رسول اللہ

سہارا یا رسول اللہ سہارا یا رسول الله


ہے گردش میں مقدر کا ستارا یا رسول اللہ

بس اک نظر کرم ہم پر خدا را یا رسول الله


دیا ہے آپ نے اس کو سہارا یا رسول اللہ

کسی نے آپ کو جس دم پکارا یا رسول اللہ


مدینے کی طرف جاتا ہوا جب کوئی ملتا ہے

تڑپتا ہے دل بے کس ہمارا یا رسول الله


ہوئی سایہ فگن ہے اس کے سر پر رحمت باری

قیامت میں تمہیں جس نے پکارا یا رسول اللہ


میسر ہو کبھی سر کار یہ دل کی تمنا ہے

نظر کو آپ کے در کا نظارہ یا رسول اللہ


ہے محضر ہند میں اور آپ ہیں گلزار طیبہ میں

کہاں تک دل کرے اس کو گوارا یا رسول اللہ
 ——

روح کونین ہے قربان مدینے والے

 روح کونین ہے قربان مدینے والے

مرحبا کتنے ہیں ذیشان مدینے والے


رفعت اوج ہر امکان مدینے والے

حاصل صنعت رحمان مدینے والے


میں بھی پہنچوں کبھی طیبہ میں بھکاری بن کر

میرے دل میں ہے یہ ارمان مدینے والے


کس تحمل سے سر عرش بریں پہنچے ہیں

بن کے اللہ کے مہمان مدینے والے


میری جانب بھی کبھی اٹھے عنایت کی نظر

میری مشکل بھی ہو آسان مدینے والے


سیل طوفان حوادث کا ہمیں کیا خطرہ

جب ہمارے ہیں نگہبان مدینے والے


مدحت پاک میں دے اپنی زباں کو جنبش

آدمی کا نہیں امکان مدینے والے


رحمتیں آپ نے برسائیں گنہگاروں پر

آپ کا کتنا ہے احسان مدینے والے


مطمئن دل ہے مرا روزِ جزا سے محضر

میری بخشش کے ہیں سامان مدینے والے
 ——

کتنا کرم ہے دیکھیے مجھ پر حضور کا

 کتنا کرم ہے دیکھیے مجھ پر حضور کا
مشہور میں غلام ہوں گھر گھر حضور کا

محفوظ وہ رہے گا قیامت کی دھوپ سے

دامن رہے گا جس کے بھی سر پر حضور کا


اس بات کا کلام الہی گواہ ہے

ہوگا نہ ہو سکا کوئی ہمسر حضور کا


چشم تصورات کے قربان جائیے

روضہ ہے میرے سینے کے اندر حضور کا


آقا اگر بلائیں تو ہو حاضری نصیب

ہر چند یہ غلام ہے بے زر حضور کا


دو نیم ماہتاب اشارے میں افتاب

اور کرتے ورد کلمہ ہیں پتھر حضور کا


جب جا کے لامکاں سے آئے مکان میں

ہلتی تھی کنڈی گرم تھا بستر حضور کا


چومیں قدم نہ کیسے دو عالم کی رفعتیں

ادنی سا اک غلام ہے محضر حضور کا
 ——

مے نوش ہوں ہے کتنے قرینے کی آرزو

 مے نوش ہوں ہے کتنے قرینے کی آرزو

میخانۂ نبی سے ہے پینے کی آرزو


اس عاشق رسول کی نسلیں مہک اٹھیں

تھی جس کے دل میں ان کے پسینے کی آرزو


جب سے رسول پاک نے ہیں رکھ دئیے قدم

جنت بھی کر رہی ہے مدینے کی آرزو


کافی ہے مرے دل کے لئے عشق مصطفیٰ

کیا پوچھتے ہو کیسے ہے جینے کی آرزو


آنکھوں کے سامنے ہے سمندر گناہ کا

رکھتا ہوں پنجتن کے سفینے کی آرزو


اک سمت میرا ذہن ہے اک سمت میرا دل

مکے کی ہے تلاش مدینے کی آرزو


یوں دل کو عشق سرور عالم کی ہے طلب

جیسے کرے انگوٹھی نگینے کی آرزو


شاید کیا ہے یاد دیار رسول نے

بے چین کر رہی ہے مدینے کی آرزو


بو جہل چاہتا تھا نہ ہو دین کا فروغ

پوری نہ ہوسکی یہ کمینے کی آرزو


قطب المدار طیبہ سے جولے کے آئے ہیں

محضر ہے مجھ کو ایسے دفینے کی آرزو
 ——

صبا نے آکر دیا یہ مژدہ حضور طیبہ بلا رہے ہیں

صبا نے آکر دیا یہ مژدہ حضور طیبہ بلا رہے ہیں

سلام رخصت تجھے تمنا حضور طیبہ بلا رہے ہیں


نہ آ مرے پاس فکر دنیا حضور طیبہ بلا رہے ہیں

نہ روکے کوئی بھی میرا رستہ حضور طیبہ بلا رہے ہیں


جبیں کو اپنی قدم بنانا نظر نظر کو ادب سکھانا

کہ دیکھنا ہے جمال خضری حضور طیبہ بلا رہے ہیں


بڑھایا آقا نے تیرا رتبہ قبول ہوگا ہر ایک سجدہ

چمک اٹھا ہے ترا ستارہ حضور طیبہ بلا رہے ہیں


نگاہ سردار انبیاء میں بس اک یہی قیمتی ہے تحفہ

سنبھال کر رکھ دل شکستہ حضور طیبہ بلا رہے ہیں


عجیب تر عشق کا چلن ہے کہ چال میں والہانہ پن ہے

بلال نے خواب میں جو دیکھا حضور طیبہ بلا رہے ہیں


میں عاصی اور رحمتوں کا زینہ کہاں یہ محضر کہاں مدینہ

دعا ہے ماں کی کرم خدا کا حضور طیبہ بلا رہے ہیں
 ——

کب تک یہ کہہ کر ہم آقا اپنا دل بہہ لائیں گے

کب تک یہ کہہ کر ہم آقا اپنا دل بہہ لائیں گے

اب کے امیدیں راس آئیں گی اب کی مدینے جائیں گے


عظمت آقا کے سب منکر آگ میں ڈالے جائیں گے

جو ہیں وفاداران رسالت وہ کوثر چھلکا ئیں گے


کیسی تپش اور کیسی گرمی منہ کو چھپائے گا سورج بھی

سر پہ گنہگاروں کے وہ گیسو حشر میں جب لہرائیں گے


لگ جائے گا پار سفینہ ڈوبنے والے وہ ہے مدینہ

جب ان کی تو دے گا دہائی طوفاں خود کترائیں گے


کیسی دوری کیا مہجوری دیں گے جب آقا اذن حضوری

پہنچیں گے ہم اڑ کے مدینہ ایسے بھی دن آئیں گے


آنکھ میں جو غم کے بادل ہیں ان کو کم قیمت نہ کہو

یہ بادل ہیں ہجر نبی کے یہ موتی برسائیں گے


محضر ان کا ہر متوالا کرتا ہے مرنے کی تمنا

جب سے سنا ہے کنج لحد میں وہ جلوہ دکھلائیں گے
 ——

جو بھی مرے حضور کے در کے قریب ہیں

 جو بھی مرے حضور کے در کے قریب ہیں

یہ سوچئے وہ کتنے بڑے خوش نصیب ہیں


آنکھوں سے اپنی موتی لٹاتے ہیں عشق کے

کہنے کو ان کے چاہنے والے غریب ہیں


خنجر گلے پہ پھر بھی ہے سجدے کی آرزو

آقائے کائنات کے پیارے عجیب ہیں


کوئی مسیح ، کوئی کلیم اور کوئی خلیل

لیکن مرے حضور خدا کے حبیب ہیں


میں تم میں چھوڑ جاتا ہوں قرآں و اپنی آل

وہ کہتے ہیں جو دین کے پہلے خطیب ہیں


لائیں وہ کیا نگاہ میں جنت کی راحتیں

طیبہ کی نعمتیں جنہیں محضر نصیب ہیں
 ——

بھروسہ پل کا نہیں یہ گھڑی ملے نہ ملے

 بھروسہ پل کا نہیں یہ گھڑی ملے نہ ملے

چلو مدینے یہ موقع کبھی ملے نہ ملے


تو جذب شوق کو اپنا بنا رفیق سفر

سفر طویل ہے ساتھی کوئی ملے نہ ملے


سر نیاز ہر اک گام پر لٹا سجدے

تجھے مدینے کی پھر یہ گلی ملے نہ ملے


در نبی پہ حضوری کے واسطے مجھ کو

جنون عشق ہے کافی کوئی ملے نہ ملے


حضور جس میں ہوں بالیں پر جلوہ گر مالک

ملے وہ موت مجھے زندگی ملے نہ ملے


اسے تو صحن حرم میں سلام کرتا چل

دیار ہوش میں دیوانگی ملے نہ ملے


نہال کیوں نہ ہو دید جمال خضری سے

کہ دل کو پھر کبھی ایسی خوشی ملے نہ ملے


سنا دے جھوم کے اشعار نعت اے محضر

کہ پھر فضائے دیار نبی ملے نہ ملے
 ——

Top Categories