madaarimedia

تو میں نے نعت پڑھی ہے

 جب بھی کسی منزل پہ دیکھا اپنے کو ناکام

تو میں نے نعت پڑھی ہے


الجھے بلاؤں میں یوں ہم ہیں ایک ہے دل اور لاکھوں غم ہیں

جب بھی دیکھا گھیرے ہوئے ہیں رنج و غم و آلام


تو میں نے نعت پڑھی ہے


یاد مدینہ دل میں بسی ہے ورد زباں بس ذکر نبی ہے

جب بھی تصور میں لہرائی ہے طیبہ کی شام


تو میں نے نعت پڑھی ہے


ساری مصیبت دور ہوئی ہے فکر جہاں کافور ہوئی ہے

نام محمد سے جب دل نے پایا ہے آرام


تو میں نے نعت پڑھی ہے


آپ کا جب کوئی ذکر سنائے آنکھ ہماری تر ہو جائے

پیارے نبی کا جب بھی کسی کے آیا زباں پہ نام


تو میں نے نعت پڑھی ہے


تیرا تڑپنا رنگ ہے لایا چل محضر آقا نے بلایا

طیبہ سے جب لوٹنے والا لایا یہ پیغام


تو میں نے نعت پڑھی ہے
 ——

کیسا پیارا نبی کا ہے بچپن

 فرش پر فخر انس و جاں آئے

عرش اعظم کے میہماں آئے

وجہ تخلیق دو جہاں آئے

رشک خلد آمنہ کا ہے آنگن


کیسا پیارا نبی کا ہے بچپن


جس سے کونین، جگمگائیں گے وہ دیا چاہئے حلیمہ کو

دونوں عالم میں سرخ روئی کا واسطہ چاہئے حلیمہ کو

آج گودی میں رب کا ہے محبوب اور کیا چاہئے حلیمہ کو

اس سواری کے اب بھی ہیں چرچے جس سواری پہ آپ تھے بیٹھے

جب حلیمہ کے گاؤں میں پہنچے بھر گئے بوڑھی بکریوں کے بھی تھن


کیسا پیارا نبی کا ہے بچپن


چہرۂ آسمان سورج کی اپنے ماتھے سجائے ہے بندیا

مانگ میں کہکشاں تو اوڑھے ہے سر پہ قوس قزح کا دوپٹہ

منظر کائنات ہے پہنے رنگ وانوار کا حسیں جوڑا

ہے سبھی کے لئے یہ آسائش یہ زمیں آسماں کی زیبائش

ہے اسی واسطے یہ آرائش جو بنی کائنات ہے دلہن


کیسا پیارا نبی کا ہے بچپن


یوں تجارت کے واسطے آقا چل دئے ملک شام کی جانب

یہ سلیقہ بھی سیکھ لے دنیا چل دئے ملک شام کی جانب

چاند تارے بھی لیکے نوری ردا چل دئے ملک کی شام کی جانب

دھوپ میں ریت پر جو وہ گذرے ابر کے شامیانے ساتھ چلے

کہا راہب نے یہ تو وہ گل ہیں جس سے مہکیں گے دو جہاں کے چمن


کیسا پیارا نبی کا ہے بچپن


میرے پیارے حضور بچپن میں کھیل سے دور دور رہتے تھے

دیکھئے تو قصور والوں میں رہ کے بھی بے قصور رہتے تھے

کسی حالت میں بھی رہیں لیکن اپنے رب کے حضور رہتے تھے

ان کے پاؤں کی ہے جہاں پے چل خار کے فرش بن گئےمخمل

وہ عرب میں ببول کے جنگل عاشقوں کے لئے بنے گلشن


کیسا پیارا نبی کا ہے بچپن


آج عاجز ہے خضر کا محضر علم وفن آمنہ کے آنگن میں

علم و حکمت کا ایک دریا ہے موجزن آمنہ کے آنگن میں

ناز خالق کو ہے وہ آیا ہے گلبدن آمنہ کے آنگن میں

خوش ہیں آج آمنہ و عبد اللہ گھر پہ آئے ہیں خضر اور موسیٰ

آج جبریل بھی ہیں بے پردہ اٹھ گئی سرحق سے ہے چلمن

کیسا پیارا نبی کا ہے بچپن

 ——

بس گئی خضری کی تصویر مری آنکھوں میں

 بس گئی خضری کی تصویر مری آنکھوں میں

ہے مرے خواب کی تعبیر مری آنکھوں میں


چاہوں جب گنبد خضری کا نظارا کر لوں

کاش پیدا ہو وہ تاثیر مری آنکھوں میں


دیکھا جب گنبد خضری تو یہ محسوس ہوا

جیسے ہو حسن کی جاگیر مری آنکھوںمیں


اب پھٹکتا ہی نہیں پاس مرے رجس گناہ

دیکھ کر نقشہ تطہیر مری آنکھوں میں


یہ عمر کہتے ہیں کیسے نہ کہوں میں آقا

ہے بلال آپ کی توقیر مری آنکھوں میں


یہ کہیں ناوک دیدار مدینہ تو نہیں

چھتا رہتا ہے کوئی تیر مری آنکھوں میں


سلسلہ عشق رسالت سے ہے جس کا محضر

آنسؤوں کی ہے وہ زنجیر مری آنکھوں میں
 ——

جنت کی دل نشیں بہارو میں کھو گئے

 جنت کی دل نشیں بہارو میں کھو گئے

طیبہ کے جاں فروز نظاروں میں کھو گئے


لکھی بلندیاں تھیں انہیں کے نصیب میں

جو مسجد نبی کے منارو میں کھو گئے


دیوانوں نے جو پالیا طیبہ کا گلستاں

چوما گلوں کو اور کبھی خاروں میں کھو گئے


جب یاد آگئی کبھی زید و بلال کی

کچھ دیر ہم بھی درد ماروں میں کھو گئے


جن کی بلندیوں پہ فرشتوں کو رشک تھا

وہ عظمت نبی کے کنارو میں کھو گئے


وہ جنت البقیع کی اللہ ری کیفیت

ہوش و حواس نوری مزاروں میں کھو گئے
 ——

پسینہ بھی مرے آقا کا رشک مشک و عنبر ہے

 پسینہ بھی مرے آقا کا رشک مشک و عنبر ہے
گزر جائیں وہ جس رستے سے وہ رستہ معطر ہے

قدم فخر دو عالم کا ترے سینے کے اوپر ہے

مدینے کی زمیں تیرا بڑا اعلیٰ مقدر ہے


جہاں قرآن حق اترا جہاں فرمان حق پھیلا

وہ کعبہ کا نصیبہ تھا یہ طیبہ کا مقدر ہے


مٹائیں گے وہی تشنہ لبی ہم تشنہ کاموں کی

بہایا انگلیوں نے جن کی رحمت کا سمندر ہے


رخ پر نور بے پردہ ہے آنگن میں حلیمہ کے

یہ منظر دیکھ کر حیرت زدہ ماہ منور ہے


چلے تھے قتل کرنے کے لئے اعجاز تو دیکھو

نبی کو دیکھ کر خم ہو گیا فاروق کا سر ہے


خدا نے سارے اوصاف حمیدہ رکھ دئے اس میں

اسد اللہ ہے جو مرتضی ہے اور حیدر ہے


سکندر کی شہنشاہی بھی یہ کہتی ہے اے محضر

محمد کی غلامی شان سلطانی سے بڑھ کر ہے
 ——

دل اک پل آرام نہ پائے وہ بھی اتنی رات گئے

 دل اک پل آرام نہ پائے وہ بھی اتنی رات گئے

رہ رہ کے طیبہ یاد آئے وہ بھی اتنی رات گئے


رحمت عالم آپ کی یادیں کام آجاتی ہیں ورنہ

کون ہمارا جی بہلائے وہ بھی اتنی رات گئے


دن کے اجالے شرماتے ہیں ان نورانی گلیوں سے

آنکھوں میں طیبہ کھینچ آئے وہ بھی اتنی رات گئے


عشق کا مارا دل بے چارہ جب کوئی اس کا بس نہ چلا

ہجر نبی میں اشک بہائے وہ بھی اتنی رات گئے


عالم تنہائی میں آقا تیرا تصور تیرا جمال

سوئے احساسات جگائے وہ بھی اتنی رات گئے


اپنے کافوری ہونٹوں سے چومے قدم یا دے آواز

کس طرح جبریل جگائے وہ بھی اتنی رات گئے


دل میں کسک پیدا ہوتی ہے آنکھیں نم ہو جاتی ہیں

جب محضر تو نعت سنائے وہ بھی اتنی رات گئے
 ——

پیاس سے ہیں جاں بلب کچھ حوصلہ دو مصطفیٰ

 پیاس سے ہیں جاں بلب کچھ حوصلہ دو مصطفیٰ

انگلیوں سے فیض کے چشمے بہا دو مصطفیٰ


کثرت غم میں بھی جینے کی ادا دو مصطفیٰ

درد اپنا دل کے گوشوں میں بسا دو مصطفے


خانۂ بے نور ہے اس کو ضیاء دو مصطفے

شمع اپنے عشق کی دل میں جلا دو مصطفى


جس سے آقائے زمانہ بن گئے حضرت بلال

ایسا جذبہ عشق کا بہر خدا دو مصطفى


گل نہ کر پائیں جسے ظلم و جفا کی آندھیاں

اک چراغ ایسا مرے دل میں جلا دو مصطفیٰ


گر ہی کی ظلمتوں نے گھیر رکھا ہے مجھے

ان اندھیروں میں ذرا سا مسکرا دو مصطفیٰ


میں کسی کے بھی سہارے کا تمنائی نہیں

بے سہارا ہوں مجھے تم آسرا سے دو مصطفى


محو کرکے آنکھوں سے ہر منظر کونین کو

اپنی صورت کا مجھے شیدا بنادو مصطفى
 ——

جذبات محبت کے اسباب بہم کرنا

 جذبات محبت کے اسباب بہم کرنا

آنکھوں گھٹا بر سے تب نعت رقم کرنا


ہمدرد نہیں اپنا کوئی بھی سر محشر

سر کار کرم کرنا سر کار کرم کرنا


کچھ پھول سجا لے نا آقا کی محبت کے

اپنے دل ویراں کو یوں رشک ارم کرنا


ترسی ہوئی آنکھوں کی بس ایک تمنا ہے

سرکار عطا ان کو دیدار حرم کرنا


سرکار کی سیرت نے یہ درس دیا ہم کو

دنیا کے لئے یارو سر اپنا نہ خم کرنا


ہے دل کو یقیں آقا دامن میں چھپائیں گے

پھر کیا جو زمانے کی عادت ہے ستم کرنا
 ——

خلاف آداب عشق ہوگا نہ دیکھ نظریں اٹھا اٹھا کے

 خلاف آداب عشق ہوگا نہ دیکھ نظریں اٹھا اٹھا کے

یہ جلوہ گاہے حبیب حق ہے یہاں پہ چل سر جھکا جھکا کے


فراق طیبہ میں کیا بتائیں نہ جانے کتنی گذاری راتیں

چراغ امید و بیم میں نے جلا جلا کے بجھا بجھا کے


ملی جو عشق نبی کی دولت یہ میرے آقا کی ہے عنایت

اسی لئے دل کو رکھ رہا ہوں ہر اک نظر سے بچا بچا کے


ہے سر میں عشق نبی کا سودا نگاہ میں ہے جمال خضریٰ

چلیں گھٹائیں ہیں سمت طیبہ کسی کے دل کو رلا رلا کے


ہے سامنے روضہ منور مگر ہے پہرہ نگاہ و دل پر

ہے دیکھتا جالیوں کو زائر نظر کو اپنی چرا چرا کے


ہیں جان و دل آپ کے حوالے حضور ہم کو یہ دنیا والے

سمجھ کے مٹی کا اک گھروندہ بگاڑتے ہیں بنا بنا کے


چلیں اشاروں پہ چاند سورج ہر ایک ذرے پہ ہے حکومت

اے میرے آقا یہ دونوں عالم فدا ہیں تیری ادا ادا کے


یہ دین وایمان کے لٹیرے جو بس چلے گا تو لوٹ لیں گے

متاع عشق نبی کو محضر رکھو جہاں سے بچا بچا کے
 ——

آگئے آگئے مصطفى آگئے

 

ابر اخلاص کے ہر طرف چھا گئے

آگئے آگئے مصطفى آگئے


اوس و خزرج کے دل کی کدورت مٹی

عالم کفر میں پڑگئی کھل بلی

رومی اور پارسی سن کے گھبرا گئے


آگئے آگئے مصطفیٰ آگئے


آفتاب عرب سے جو پھوٹی کرن

جگمگانے لگی انجمن انمن

دل جو تاریک تھے روشنی پاگئے


آگئے آگئے مصطفیٰ آگئے


اس جہاں سے بلندی و پستی مٹی

اور زمیں آسماں کے گلے مل گئی

ہر طرف پرچم امن لہرا گئے


آگئے آگئے مصطفیٰ آگئے


مومنوں کو ملا قرب اللہ کا

اولیاء کو ملی دولت بے بہا

انبیاء ورسل مدعا پاگئے


آگئے آگئے مصطفیٰ آگئے


غم کی تاریکیوں کو ملی روشنی

بھیگی آنکھوں سے محضر جو آواز دی

میری آنکھوں کے آنسو جلا پاگئے


آگئے آگئے مصطفیٰ آگئے
 ——

Top Categories