madaarimedia

لب پہ انہیں کا ذکر بصد احترام ہے

 لب پہ انہیں کا ذکر بصد احترام ہے

بھیجا خدا نے جن پہ درود و سلام ہے


دوزخ ملی تھی وہ تو یہ کہئے حضور نے

فرما دیا کہ یہ بھی ہمارا غلام ہے


قسمت سے مل گیا جسے دامان مصطفیٰ

واللہ اس پہ آتش دوزخ حرام ہے


اس کو یہ حادثات جہاں کیا ستائیں گے

جس کی نظر میں سیرت خیرالانام ہے


اب میرے جذب شوق کا عالم نہ پوچھئے

لے کر صبا مدینے سے آئی پیام ہے


سرکار سوئے عرشِ بریں جارہے ہیں آج

سنتے ہیں قدسیوں میں بڑا اہتمام ہے


آؤ مٹا کے فرق من و تو پئیں ادیب”

میخانہ رسول کا گردش میں جام ہے

  _______________

نیاز عشق بھی اور ناز دلربائی بھی

 نیاز عشق بھی اور ناز دلربائی بھی

عجیب چیز ہے یہ شانِ مصطفائی بھی


قدم پہ جھک گئی شاہوں کی کج کلاہی بھی

تها دیدنی تیرا اعجاز بے نوائی بھی


بہت کہا تو بشر کہہ کے ہو گیا خاموش

جو تیری ذات کسی کی سمجھ میں آئی بھی


قیود حسن کے خود اپنے ہاتھ سے توڑے

بڑے غضب کی ہے یہ لذت جدائی بھی


وہاں بھی رحمت عالم کا فیض جاری ہے

جہاں پہ فکر بشر کی نہیں رسائی بھی


یہ مرتبہ نہیں حاصل کسی کو تیرے سوا

خدا بھی تیرا ہے تیری ہے سب خدائی بھی


رسول پاک کو دیکھو عمل کے میداں میں

جو بات منہ سے نکالی وہ کر دکھائی بھی


نگاه رحمت عالم ہے عاصیوں کے لیے

ادیب” کتنی مصیبت ہے بے گناہی بھی

  _______________

تکلف سے گریزاں سادگی معلوم ہوتی ہے

 تکلف سے گریزاں سادگی معلوم ہوتی ہے

یہ تعلیم حیات احمدی معلوم ہوتی ہے


حذف ریزوں میں بھی تابندگی معلوم ہوتی ہے

ارے یہ تو مدینے کی گلی معلوم ہوتی ہے


کچھ اس انداز سے عالم میں خورشید حرا چمکا

ہر اک ظلمت کدے میں روشنی معلوم ہوتی ہے


بجائے فرش مخمل فرش ہے ٹوٹی چٹائی کا

نرالی شان در بار نبی معلوم ہوتی ہے


سرایت کر گیا ہے سوز یوں قلب بلالی کا

اذاں میں آج بھی اک دلکشی معلوم ہوتی ہے


مئے حب نبی ہے مئے کشو کیا فکر بیش و کم

پیئے جاؤ جہاں تک تشنگی معلوم ہوتی ہے


یہ کہنا ہی پڑا جا کر قریب گنبد خضری

یہاں تو زندگی ہی زندگی معلوم ہوتی ہے


پہنچ پائے نہ اب تک گنبد خضری کیسائے میں

ادیب” اپنے جنوں ہی میں کمی معلوم ہوتی ہے

  _______________

سرکار مدینہ مرے سرکار مدینہ

 سر تا بہ قدم رحمت خالق کا خزینہ
سرکار مدینہ مرے سرکار مدینہ

تکتی ہے ستاروں کی نظر جس کو فلک سے

نادم ہے رخ شمس و قمر جس کی چمک سے

تمثیل ہی ممکن نہیں جس کی وہ نگینہ


سرکار مدینہ مرے سرکار مدینہ


آنکھیں ہیں کہ چھلکے ہوئے دونور کے ساغر

لبہائے مبارک ہیں کہ برگ گل احمر

گیسوئے معنبر ہیں کہ ساون کا مہینہ


سرکار مدینہ مرے سرکار مدینہ


دی طاعت حق کی خم گردن نے گواہی

وہ پشت جو خلقت کی کرے پشت پناہی

سینہ ہے کہ ہے معرفت حق کا دفینہ


سرکار مدینہ مرے سرکار مدینہ


تر آب ندامت سے ہر اک گل کی جبیں ہے

بوئے عرقِ جسم کا ثانی ہی نہیں ہے

آہوئے ختن سونگھے تو آجائے پسینہ


سرکار مدینہ مرے سرکار مدینہ

  _______________

دل جمال رخ احمد کا طلبگار تو ہے

 دل جمال رخ احمد کا طلبگار تو ہے

تاب دیدار نہ ہو حسرت دیدار تو ہے


ہم نے مانا کہ نہیں جذب بلالی ہم میں

دل نواز اب بھی مگر الفت سرکار تو ہے


کچھ میسر نہیں ہم خاک نشینوں کو مگر

کملی والے ترا بخشا ہوا کردار تو ہے


راہ رو خود ہیں سیہ بخت اسے کیا کہئے

ورنہ روشن عمل قافلہ سالار تو ہے


کیا کروں بار ندامت سے نہ اٹھے جو نظر

سامنے جلوہ گر احمد مختار تو ہے


خیر اتنا تو کیا دل نے سلیقہ پیدا

عشق محبوب کا خالق سے طلبگار تو ہے


کم نہیں فخر یہ میرے دل وحشی کیلئے

حلقۂ گیسوئے احمد میں گرفتار تو ہے


ارض طیبہ سے بہت دور سہی دیوانہ

پھر بھی خاک در احمد کا پرستار تو ہے


آج بھی عالم غربت میں حضوری کی طلب

گوشے گوشے میں لئے اپنا دل زار تو ہے


دل کو ڈھارس ہے یہ میدانِ قیامت میں ادیب”

پشت پر رحمت عالم سا مددگار تو ہے

  _______________

جلو میں اپنے ہجوم بہار لیکے چلو

 جلو میں اپنے ہجوم بہار لیکے چلو

مدینے والے کا سینے میں پیار لیکے چلو


رسول پاک سے ہر اختیار لیکے چلو

دوائے گروشِ لیل و نہار لیکے چلو


تمہاری حاضری ہوگی در نبی پہ قبول

مگر دعائے غریب الدیار لیکے چلو


دل شکستہ کا پرساں نہیں کوئی اس کو

حضور شافع روز شمار لیکے چلو


رفوگری تو کریں گی ہوائیں طیب کی

تم اپنا دامن دل تار تار کے چلو


سکوں کی بھیک در مصطفیٰ پے ملتی ہے

مدینے اپنا دل بیقرار لیکے چلو


خلوص عشق ہی پہنچائے گا تمہیں طیبہ

یہی یقین یہی اعتبار لیکے چلو


ستم کی آندھیاں تم کو ستا نہیں سکتیں

دیار طیبہ کا سر پر غبار لیکے چلو


ہمیشہ دھوپ کی سختی میں کام آئے گا

سروں پہ دامنِ قطب المدار لیکے چلو


انہیں سے دھلتے ہیں طیبہ میں داغ عشق ادیب”

تم اپنی آنکھوں کے دو آبشار لیکے چلو

  _______________

دل میں حسرت نہیں دیدار مدینہ کے سوا

 دل میں حسرت نہیں دیدار مدینہ کے سوا

سر میں سودہ نہیں سرکار مدینہ کے سوا


جس نے ہر گام پہ ہستی کے کئے ہیں سجدے

کون ہو سکتا ہے سرشار مدینہ کے سوا


ساری دنیا کی کوئی شے نہ سمائی اب تک

چشم دل میں در و دیوار مدینہ کے سوا


کون ہے حشر میں رکھ لے جو گنہگار کی لاج

رحمت سید ابرار مدینہ کے سوا


جو بنادے شب دیجور کو روز روشن

کس میں طاقت ہے یہ انوار مدینہ کے سوا


جس کو مسرور نہ کر پائے عطائے جنت

کون ہے اور پرستار مدینہ کے سوا


لیکے جاؤں بھی کہیں اور جو فریاد و فغاں

کب سنی جائیگی دربار مدینہ کے سوا


اس جہاں میں مرے ٹوٹے ہوئے دل کا سودا

ہو نہیں سکتا ہے بازارِ مدینہ کے سوا


عاشق طیبہ ہوں کیا لیکے کروں خلد ادیب”

چین آئے گانہ گلزار مدینہ کے سوا

  _______________

جنت کے راہی کیا تجھے یہ بھی شعور ہے

 جنت کے راہی کیا تجھے یہ بھی شعور ہے

پروانے پر نبی کی گواہی ضرور ہے


چشم کرم سے اپنی اسے جوڑ دیجئے

سرکار میرا شیشۂ دل چور چور ہے


ہر ذرے میں ہیں جلوۂ وحدت کی بجلیاں

ہے یہ گماں دیارِ مدینہ میں طور ہے


کیا شان ہے جناب بلال رسول کی

ہے جسم تو سیاہ مگر دل میں نور ہے


بھیجے ہیں خود ہی قرن میں سرکار نے سفیر

وہ بھی قریب تر ہے بظاہر جو دور ہے


ہر امتی کو ناز ہے بس ایک بات پر

آقا ہمارا شافع یوم النشور ہے


مہجور مصطفیٰ کی یہ قسمت تو دیکھئے

طیبہ سے چل کے آئی ہوائے سرور ہے


آئے ہیں پا پیادہ جنید اور بایزید

اتنا ہے با ادب جسے جتنا شعور ہے


ہے آپ کے کرم پہ بھروسہ مجھے حضور

لیکن میں کیا کروں کہ یہ دل ناصبور ہے


صدیق اور عمر کا یہ اللہ رے شرف

دونوں نے پایا قرب دوام حضور ہے


عثمان اور علی کے مراتب ہیں یہ ادیب”

مقسوم میں لکھی ہوئی تملیک نور ہے

  _______________

سلمان زمانے کا چلن بھول گئے ہیں

 سلمان زمانے کا چلن بھول گئے ہیں

طیبہ کی محبت میں وطن بھول گئے ہیں


آقا نے کرم یوں ہے کیا فرش زمیں پر

ہم تیرے ستم چرخ کہن بھول گئی ہیں


اللہ رے کیف لب گفتار رسالت

هم مستئ صہبائے سخن بھول گئے ہیں


خضری پہ نظر پڑتے ہی طیبہ کے مسافر

کہتے ہیں کسے رنج ومحن بھول گئے ہیں


ہم دیکھ کے کیفیت صحرائے مدینہ

شادابئی گلزار و چمن بھول گئے ہیں


خار رہ طیبہ نے ہیں وہ نقش بنائے

نقاش بھی آرائشِ فن بھول گئے ہیں


اے آندھیوں لے آؤ غبارِ رہ طیبہ

ہم لانا مدینے سے کفن بھول گئے ہیں


دیکھے ہیں ادیب” آج جو ذراتِ مدینہ

ہم چاند کی ہر ایک کرن بھول گئے ہیں

  _______________

بر پا بزم پیمبر ہوگی

 بر پا بزم پیمبر ہوگی

تا بہ قیامت گھر گھر ہوگی


عشق نبی کے جام چلیں گے

بھیڑ کنارِ کوثر ہوگی


دیوانوں کو عید ہے مرقد

دید جمال انور ہوگی


آئے وہ دیکھو سرور عالم

اب ہر ایک مہم سر ہوگی


دیکھیں گے سرکار کا جلوہ

بادہ کشی بے ساغر ہوگی


صبح کی زنجیریں جو ٹوٹیں

شام مدینے جا کر ہوگی


خلد ادیب” ہے دشت مدینہ

بستی کتنی سندر ہوگی

  _______________

Top Categories