madaarimedia

میں نعت کہوں کب مجھے تمئیز سخن ہے

 میں نعت کہوں کب مجھے تمئیز سخن ہے

بس عشق نبی ہی مرا سر مایۂ فن ہے

پھولوں کی یہ دھرتی نہ ستاروں کا گگن ہے

طیبہ ہی فقط میری تمنا کا چمن ہے


کیا بات تری اے گل گلزارِ مدینہ

ہر غنچہ ترا نافۂ آہوئے چمن ہے


مفلس پس مردن بھی نہیں ان کے فدائی

مہتاب اڑھاتا انھیں چاندی کا کفن ہے


سورج تو نظر مجھ سے ملا ہی نہیں سکتا

آنکھوں میں مری مہر رسالت کی کرن ہے


اے صلی علیٰ ذکر طبیب ازلی کا

دل شعلہ بداماں ہے نہ سینے میں جلن ہے


رکھ دل میں حفاظت سے یہ داغ غم احمد

بازار وفا میں اسی سکے کا چلن ہے


حیران ہوں کیا تحفہ کروں پیش میں آقا

جاں دینا تو عشاق کی اک رسم کہن ہے


بیکار تو ہوتا ہے ادیب ” اتنا ہراساں

سرکار ہیں واقف جو ترے دلکی لگن ہے

 _______________


تری رفعتوں کو سمجھ سکے یہ کہاں کسی کی مجال ہے

 تری رفعتوں کو سمجھ سکے یہ کہاں کسی کی مجال ہے
ترے قرب حق کا شعور بھی پئے جبرئیل محال ہے

نہ یہ بات حسن طلب کی ہے نہ یہ آرزو کا کمال ہے

یہ انھیں کی نسبت خاص ہے کہ نہ غم نہ فکر مال ہے


زہے عشق سرور انبیاء یہ نوازشات کی انتہا

وہ ہے مصطفیٰ سے قریب تر جو اسیر زلف ہلال ہے


تو رؤف ہے تو رحیم ہے پئے دشمناں بھی کریم ہے

تو کمال خلق عظیم ہے تو خود آپ اپنی مثال ہے


جو ورود ذات نبی ہوا تو حقیقتوں سے حجاب اٹھا

تھا یہ پہلے ذہن کا فیصلہ کہ جہاں طلسم خیال ہے


ترے فقر میں ہے وہ دلبری کہ نثار تجھ پہ ہے سروری

جھکی جس کے قدموں پہ قیصری وہ تراہی جاہ و جلال ہے


تری انگلیوں کا یہ بانکپن کہ ہیں دستۂ گل پنجتن

ہے تراشانا خن پاک کا جو فلک پہ شکل ہلال ہے


وہ جوار خالق دو جہاں یہ دیار شافع عاصیاں

وہاں کبریا کا جلال ہے یہاں مصطفیٰ کا جمال ہے


ہے ادیب” خاک بسر مگر یہ ہے شان ان کے غلام کی

نہ جھکائے ہے کسی در پہ سر نہ اٹھائے دست سوال ہے

 _______________


آپ ہیں وجہ خلقت آدم محسن انساں رحمت عالم

 آپ ہیں وجہ خلقت آدم محسن انساں رحمت عالم
شکل بشر میں نور مجسم محسن انساں رحمت عالم

ذات و صفات خالق اکبر اپنے حصار ذہن کے باہر

آپ صفات و ذات کے محرم محسن انساں رحمت عالم


آپ نے دی اگلوں کی شہادت آپ پر نازاں شانِ صداقت

آپ گواہ عصمت مریم محسن انساں رحمت عالم


خلق مجسم رحم کے پیکر امی لیکن علم کے مصدر

منزل حق کے ہادئ اکرم محسن انساں رحمت عالم


چشم کرم ہے رحمت باری قہر الہی ہے بیزاری

آپ کے بس میں خلد و جہنم محسنِ انسان رحمت عالم


مرضئ خالق آپ کی مرضی یہ منصب رکھتا نہیں کوئی

آپ کہیں تو حشر ہو قائم محسن انساں رحمت عالم


بچھڑے ہوئے لوگوں کو ملایا حسنِ عمل سے اپنے مٹایا

آپ نے فرق شعلہ و شبنم محسن انساں رحمت عالم


خاک قدم معراج ہماری آپ ہی رکھئیے لاج ہماری

کہتی ہے دنیا آپ کے ہیں ہم محسن انساں رحمت عالم


ہوگا ادیب ” ان سانہ ہوا ہے قرآں میں خالق نے کہا ہے

آپ مؤخر آپ مقدم محسن انساں رحمت عالم

 _______________


جلوہ ذات محمد سے شناسائی ہو

 جلوہ ذات محمد سے شناسائی ہو
میری آنکھوں میں جو صدیق کی بینائی ہو

حسن تخلیق کا شہکار وہ کیسا ہوگا

حق نے جس کے رخ و گیسو کی قسم کھائی ہو


ذات خالق نے کیا اسلئے سائے کو جدا

میرے محبوب کے پیکر میں بھی یکتائی ہو


شمع حسان سے روشن ہوں مرے دل کے چراغ

ان کی جانب سے اگر حوصلہ افزائی ہو


ہم سے مہجورِ مدینہ پہ کرم تو دیکھو

درد بھی ہو تو بہ اندازِ شکیبائی ہو


یہ تمنا کبھی اے کاش حقیقت بنجائے

ہم مدینے میں ہوں رحمت کی گھٹا چھائی ہو


سوز دل قلب اویس قرنی سے مانگو

آتش عشق اگر سینے میں کجلائی ہو


ہم غریبوں کے ہیں غمخوار مدینے والے

اے جہاں والو ! سمجھ کر ستم آرائی ہو


حق کے محبوب ہیں رکھ لیں گے بھرم حشر کے دن

ان کے ہوتے مری کیوں حشر میں رسوائی ہو


چل تجھے یاد کیا ہے ترے آقانے ادیب”

کاش پیغام یہ طیبہ سے صبا لائی ہو

 _______________


تجلی روکش خلد بریں معلوم ہوتی ہے

 تجلی روکش خلد بریں معلوم ہوتی ہے
ہمیں تو یہ مدینے کی زمیں معلوم ہوتی ہے

تصور ذہن میں ہے ہجر طیبہ کا کسک دل میں

خلش ہوتی کہیں ہے اور کہیں معلوم ہوتی ہے


گئے بھی آئے بھی آقا مگر گردش زمانے کی

جہاں معلوم ہوتی تھی وہیں معلوم ہوتی ہے


ترے جلووں کے آگے اے جمالِ گنبد خضری

خمیده چاند تاروں کی جبیں معلوم ہوتی ہے


نہیں ہے وجہ موجیں پر سکوں ہیں بحر ہستی کی

محبت مصطفیٰ کی تہ نشیں معلوم ہوتی ہے


رسول و انبیاء سب ہیں مگر میدان محشر میں

نمایاں شان ختم المرسلیں معلوم ہوتی ہے


دو عالم پر خدا کی رحمت و انعام کی برکھا

بشكل رحمت اللعالمیں معلوم ہوتی ہے


محبت سرور کونین کی عین عبادت ہے

یہی بنیاد ایمان و یقیں معلوم ہوتی ہے


رہی اور آج بھی ہے جلوہ گاہ سرور عالم

یہ دنیا اس لئے ہم کو حسیں معلوم ہوتی ہے


نہ ڈس لے اے ادیب ” اک دن تمنائے حضوری کو

یہ مایوسی تو مارِ آستیں معلوم ہوتی ہے

 _______________


نظر حضور کی اٹھی کس اہتمام کے بعد

 نظر حضور کی اٹھی کس اہتمام کے بعد
کمال ہوش بھی پایا حصول جام کے بعد

فراق طیبہ میں عالم عجیب ہوتا ہے

طلوع صبح سے پہلے غروب شام کے بعد


دیار ہند میں کب تک پھروں میں آوارہ

مرے حضور سے کہنا صبا سلام کے بعد


نجات قبر کی پرسش سے مل گئی مجھ کو

سوال ہی نہ اٹھا پھر نبی کے نام کے بعد


مقام رفعت محبوب کوئی کیا جانے

الوہیت کے ہیں جلوے اسی مقام کے بعد


سمجھ رہے ہیں حروف مقطعات حضور

ہیں جبرائیل بھی حیران اس پیام کے بعد


حرم صفات بنایا ہے خانہ دشمن

دلوں کو جیتا ہے آقا نے اذن عام کے بعد


خموش اشک بہاتے ہیں عاشقانِ نبی

مجال آہ کہاں حکم احترام کے بعد


پہنچ سکے نہ ادب ناشناس طیبہ تک

چلے تو بیٹھ گئے تھک کے چند گام کے بعد


نشان راہ کا اصحاب مصطفیٰ سے ملا

ستارے چمکے غروب مہ تمام کے بعد


یہ درس عدل و مساوات کوئی دیکھے تو

عمر سواری پہ بیٹھے مگر غلام کے بعد


مدینہ چل جو طلب ہے سکون دل کی ادیب”

یہ نعمتیں تو ملیں گی وہیں قیام کے بعد

 _______________


خدا نے آپ کو شیریں مقال رکھا ہے


خدا نے آپ کو شیریں مقال رکھا ہے
جواب تلخئ ماضی و حال رکھا ہے

اس آرزو میں کہ بس جائے آکے یاد حضور

ہر اک خیال کو دل سے نکال رکھا ہے


وہ صرف ذات محمد ہے جسکو خالق نے

ورائے وہم و گمان و خیال رکھا ہے


عطا تو کر دیا حق نے انہیں لباس بشر

ادا ادا سے مگر بے مثال رکھا ہے


یہ سنگ ریزے نہیں ہیں دیا ر طیبہ میں

قدم قدم پہ دل پائمال رکھا ہے


ہے سلسلہ ترا اے درد عشق طیبہ سے

اسی لئے مجھے سینے میں پال رکھا ہے


حضور گیسوئے رحمت جو ہیں بکھیرے ہوئے

یہ پردہ میرے گناہوں پر ڈال رکھا ہے


کہاں یہ فرش زمیں اور کہاں وہ عرشِ بریں

حضور نے مجھے حیرت میں ڈال رکھا ہے


چلے ادیب ” ہیں شہر نبی سے دیوانے
دلوں کو ہاتھوں سے لیکن سنبھال رکھا ہے 

 _______________


طیبہ دربار چلیں طیبہ دربار چلیں

 طیبہ دربار چلیں طیبہ دربار چلیں
آوری آؤ سکھی ساجن کے دوار چلیں

خوشیو سے مہکائیں طیبہ کی گلیاں

مدحت کے غنچے ہوں نعتوں کی کلیاں

خدمت میں لیکے درودوں کے ہار چلیں


طیبہ دربار چلیں طیبہ دربار چلیں


ہر ذرے ذرے پہ آنکھیں بچھائیں

اپنی جبینوں سے سجدے لٹائیں

پلکوں سے طیبہ کی گلیاں بہار چلیں


طیبہ در بار چلیں طیبہ دربار چلیں


تاروں میں ہوتے ہیں باہم اشارے

دوری سے کب تک کرینگے نظارے

آقا کے روضہ پر تن من کو وار چلیں


طیبہ دربار چلیں طیبہ دربار چلیں

 _______________


کونین کا مختار نہ ہوگا نہ ہوا ہے

کونین کا مختار نہ ہوگا نہ ہوا ہے

مثل شہ ابرار نہ ہوگا نہ ہوا ہے


نازاں ہے مجھے بخش کے اللہ کی رحمت

مجھ سا بھی گنہگار نہ ہوگا نہ ہوا ہے


جب تک نہ ملیں دامنِ رحمت کی ہوائیں

دیوانہ تو ہشیار نہ ہوگا نہ ہوا ہے


دنیا ہو کہ عقبی مرے سرکار کا جیسا

ہر ایک کا غمخوار نہ ہوگا نہ ہوا ہے


کافی ہے مرے دل کے لئے عشق محمد

دنیا سے مجھے پیار نہ ہوگا نہ ہوا ہے


ٹوٹے ہوئے دل کا مرے آقا کے علاوہ

کوئی بھی خریدار نہ ہوگا نہ ہوا ہے


دنیا میں غریبوں کا کوئی چاہنے والا

جز احمد مختار نہ ہوگا نہ ہوا ہے


معلوم ہے بھر دیتے ہیں جھولی مرے آقا

مایوس دل زار نہ ہوگا نہ ہوا ہے


سرکار ادیب ” اپنے ہیں کونین کی رحمت
اس بات سے انکار نہ ہوگا نہ ہوا ہے 

 _______________


ہم گنہگاروں کے حق میں تھی وہ نعمات کی رات


ہم گنہگاروں کے حق میں تھی وہ نعمات کی رات

اپنے محبوب سے خالق کی ملاقات کی رات


کیسے ہوتی تھی بسر محسن ہر ذات کی رات

پوچھتی ہے مرے افکار و خیالات کی رات


بے حجابانہ وہ بڑھتے ہوئے آقا کے قدم

اور اٹھتے ہوئے پیہم وہ حجابات کی رات


تھی ابو بکر کو صدیق بنانے والی

وہ جو بوجہل کو تھی سحر طلسمات کی رات


معترف کون نہیں رحمت عالم تیرا

دن دعاؤں کا ہے شاہد تو مناجات کی رات


یاد ہے اب بھی زمانے کو وہ عزم ہجرت

وہ ہر اک لمحہ بدلتے ہوئے حالات کی رات


ہر طرف سرور کونین کے انوار جمیل

مجھ سے مانگے ہے مچلتے ہوئے جذبات کی رات


ہاں ضیا بار ہو اے مہر رسالت کہ ہمیں

پھر ہے ہر سمت سے گھیرے ہوئے ظلمات کی رات


فرش تا عرش ہے اک سلسلہ نور ادیب “
کتنی پیاری ہے مدینے کے مضافات کی رات 

 _______________


Top Categories