madaarimedia

نور احمد سے منور ہے مدینے کی زمیں

نور احمد سے منور ہے مدینے کی زمیں

سجده گاہ مہ و اختر ہے مدینے کی زمیں


قدم ناز محمد سے شرف پاتا ہے

عرش رکھے ہوئے سر پر ہے مدینے کی زمیں


پا گئی تھی کبھی گیسوئے محمد کی مہک

اب بھی اتنی ہی معطر ہے مدینے کی زمیں


ایک ہم جن کا ٹھکانا نہیں دنیا میں کہیں

ایک وہ جن کو میسر ہے مدینے کی زمیں


اپنے عشاق کی توقیر بڑھانے کے لئے

اٹھ کے آئی سر محشر ہے مدینے کی زمیں


سب یہ کہتے ہیں کہ اشرف ہے دیار کعبہ

کعبہ کہتا ہے کہ بہتر ہے مدینے کی زمیں


ان میں موتی ہیں رسالت کے امامت کے گہر

کیا کہیں کتنی تو نگر ہے مدینے کی زمیں


وجہ کونین کا مسکن ہے اسی کا سینہ

سارے کو نین کا جوہر ہے مدینے کی زمیں


بے ادب نجد کا صحرا ہے تری قسمت میں

اہل ایماں کا مقدر ہے مدینے کی زمیں


چل و ہیں تو بھی مقدر جو بنانا ہے ادیب”

مرکز دین پیمبر ہے مدینے کی زمیں 

 _______________


اک تحفۂ نایاب ہے خالق کی نظر میں

 اک تحفۂ نایاب ہے خالق کی نظر میں

وہ سجدہ کیا ہے جو تری راہ گزر میں


ممکن نہ ہو ادراک تری ذات کا اب تک

ہونے کو تو یوں کیا نہیں امکان بشر میں


سب پر تو روئے شہ بطحا کا ہے صدقہ

ورنہ یہ تحلی کہاں انوار سحر میں


یہ ہجر غم عشق محمد سے ہیں نکلے

آنسو ہیں کہ موتی ہیں مرے دیدۂ تر میں


اے یاد مدینہ ترا صدقہ ہے کہ ہر دم

اک تازہ کسک پاتا ہوں میں قلب و جگر میں


اے سختیئ منزل میں گلے تجھ کو لگاتا

مل جاتی کہیں تو جو مدینے کے سفر میں


نکلی تو ہے ہجر شہ بطحا میں تو اے آہ

اللہ کرے ڈوب کے نکلی ہو اثر میں


ہے سامنے آنکھوں کے مرے گنبد خضرا

یا جلوے سمٹ آئے ہیں دامان نظر میں


کہتے ہیں اسی کو تو ادیب” اصل اطاعت

بس نام خدا رہ گیا صدیق کے گھر میں

 _______________


کچھ اور اس کو سجھئے وہ آدمی کیا ہے

 کچھ اور اس کو سجھئے وہ آدمی کیا ہے

جسے پتہ ہی نہیں الفت نبی کیا ہے


مجھے یقین ہے میں کچھ بھی کہہ نہ پاؤں گا

اگر حضور یہ پونچھیں تری خوشی کیا ہے


بڑے گا شوق حضوری کچھ اور اے زائر

ابھی تو دور ہے طیبہ سے تو ابھی کیا ہے


بچھڑ گیا ہے یہ شاید کوئی مدینہ سے

ہر اک سے پوچھتا پھرتا ہے زندگی کیا ہے


ہوا طلوع وہیں سے ہے دین کا سورج

ثبوت غار حرا دے گا روشنی کیا ہے


مدینے پہنچا تو محسوس یہ ہوا مجھ کو

ہر ایک شئے یہاں اپنی ہے اجنبی کیا ہے


سبق یہ مل گیا خلق محمدی سے ہمیں

کہ اک پڑوسی سے انداز دوستی کیا ہے


رکھے ہوئے ہوں میں نعلین مصطفیٰ سر پر

یہ مجھ سے پوچھو کہ تاج شہنشہی کیا ہے


کشود راه ہدایت کا ہے ذریعۂ خاص

جہاں میں چاروں صحابہ کی پیروی کیا ہے


سفر مدینے کا کرنے کے بعد ہی تو ادیب”

پتہ یہ چلتا ہے اخلاص باہمی کیا ہے

 _______________


بسائے رکھو دلوں میں خیال طیبہ کا

 بسائے رکھو دلوں میں خیال طیبہ کا

کوئی تو ہو سببِ اتصال طیبہ کا


لئے ہیں چوم جو سرکار دو جہاں کے قدم

تو کوچہ کوچہ ہوا بے مثال طیبہ کا


مقام سدرہ نہیں ہے یہ جبرئیلِ امیں

ادب ہے شرط کہ یہ ہے سوال طیبہ کا


حضور جلوہ فگن ہیں تو پھر ہر اک موسم

سدا ملے گا تمہیں لا زوال طیبہ کا


جو سرجھکے تو پہنچ جاؤں میں مدینے میں

جنون عشق وہ رستہ نکال طیبہ کا


بجز حضور کے موضوع گفتگو ہی نہیں

ہر اک سے پوچھتا رہتا ہوں حال طیبہ کا


ذرا جبین فلک کو تو غور سے دیکھو

ہے مہر و ماہ میں حسن و جمال طیبہ کا


شعور دین ملا ہے در نبی سے مجھے

ہے میرا رہن کرم بال بال طیبہ کا


بہت حسین ہو تصویر کائنات اگر

بتا ہو نقشہ کہیں خال خال طیبہ کا


وہیں سے ملتا ہے دونوں کو گردشوں کا نظام

طواف کرتے ہیں یہ ماہ و سال طیبہ کا


گئے ہیں اوج فلک پر بشکل صوتِ اذاں

پیام لے کے جناب بلال طیبہ کا


میں کیا کروں گا مہ و مہر کاتب تقدیر

مرے نصیب میں لکھ دے ہلال طیبہ کا


ہے بخشا نعت نبی نے تجھے وقار ادیب”

یہ کہہ رہا ہے ہر اک باکمال طیبہ کا

 _______________


غلط کہ آقا نے بیت الحرام چھوڑ دیا

 غلط کہ آقا نے بیت الحرام چھوڑ دیا

یہ سچ ہے مکہ میں اپنا قیام چھوڑ دیا


نبی نے جس سے سلام و پیام چھوڑ دیا

تو کرنا اس سے سبھی نے کلام چھوڑ دیا


چلے حضور جو اقصیٰ سے عرش کی جانب

تو گردشوں نے جہاں کا نظام چھوڑ دیا


حرام کر دیا سرکار نے جو دور شراب

ہر ایک شخص نے ہاتھوں سے جام چھوڑ دیا


مدینے والو! ملے گی جگہ نہ دنیا میں

اگر حضور کا قرب دوام چھوڑ دیا


حضور بدر و احد میں ہیں معرکہ آرا

کہ آج شیخ نے اپنا نیام چھوڑ دیا


بکھر گئی ہے کچھ ایسی ہوائے زلفِ نبی

کہ بوئے گل نے بھی اپنا خرام چھوڑ دیا


حضور محو سماعت تھے عرض کیا کرتا

سنایا قصہ مگر نا تمام چھوڑ دیا


لکھیں گی ذلت و رسوائیاں مقدر میں

کسی نے ان کا اگر احترام چھوڑ دیا


وہ جاں نثار بھی کیا تھے جنہوں نے دریا میں

سفینہ لیکے محمد کا نام چھوڑ دیا


بتا اے شوق حضوری کہ ہے مجھے تو نے

چلا کے راہ پہ کیوں گام گام چھوڑ دیا


اگر پڑی ہے ضرورت حبیب خالق کو

تو جبرئیل نے سدرہ کا بام چھوڑ دیا


ملا ہے جام جسے ساقئ مدینہ سے

وہ کہہ نہ پایا مجھے تشنہ کام چھوڑ دیا


بنا کے قاسم نعمات ان کو خالق نے

انہیں کی ذات پہ کل انتظام چھوڑ دیا


ہٹی جو اسوۂ سرکار سے نظر تو ادیب”

بنا کے نفس نے مجھ کو غلام چھوڑ دیا

 _______________


اللہ ری وہ ژرف نگاہی بلال کی

اللہ ری وہ ژرف نگاہی بلال کی

سرکار دے رہے ہیں گواہی بلال کی


وہ جانتا ہے کیا ہے سیاہی بلال کی

دیکھی ہے جس نے نور نگاہی بلال کی


اس دور کفر و شرک میں توحید کے لئے

درکار تھی احد کو گواہی بلال کی


جب سے شرف غلامئ آقا کا مل گیا

سارے جہان پر ہوئی شاہی بلال کی


پہنچے وہی ہیں منزلِ عشق رسول تک

تقلید کر رہے تھے جو راہی بلال کی


لے گی عقیدتوں کا خراج اہلِ عشق سے

روز جزا خمیدہ کلاہی بلال کی


سنگ گراں کے نیچے بھی کہتے رہے احد

آقا کو بھاگئی یہ ادا ہی بلال کی


حیرت میں پڑ گیا ہے سر اوج لامکاں

آواز سن کے عرش کا راہی بلال کی


بے روک ٹوک خلد میں جانے کو چاہئے

پروانہ مصطفیٰ کا گواہی بلال کی


کچھ اور تجھ سے مانگوں تو کٹ جائے یہ زباں

توفیق عشق دیدے الہی بلال کی


لپٹا ہوا ہے کعبہ علاف سیاہ میں

محبوب ہے خدا کو سیاہی بلال کی


روشن ہوا ہر ایک طبق کائنات کا

گردش میں آگئی جو سیاہی بلال کی


آقا نے اختیار کیا ہے سیہ لباس

اتنی پسند آئی سیاہی بلال کی


تھیں جوڑنی جو نسبتیں ان کے غلام سے

ہیں لے اڑیں گھٹائیں سیاہی بلال کی


گہنا لیا ہے چاند نے اپنے کو رشک میں

جب سے نظر ہے آئی سیاہی بلال ک


لوگو! وجود ماه پہ ڈالو تو اک نظر

کتنی چمک رہی ہے سیاہی بلال کی


ظلمات کا وقار نگاہوں میں بڑھ گیا

لائی عجیب رنگ سیاہی بلال کی


حوران جنتی نے بصد شوق خال خال

مل جل کے بانٹ لی ہے سیاہی بلال کی


بن جاؤں آفتاب درخشاں سے بھی سوا

مل جائے کاش تھوڑی سیاہی بلال کی


ہم سے سیاہ کاروں کی قسمت چمک اٹھی

چھائی جو آسماں پہ سیاہی بلال کی


ہے دیکھنا جو نور رسالت مآب کا

رکھ لی ہے پتلیوں میں سیاہی بلال کی


ڈالی نگاہ نورِ مجسم نے ہے ” ادیب”

ہے وجہ فخر و ناز سیاہی بلال کی 

 _______________


مکی مدنی ہاشی و مطلبی کے

مکی مدنی ہاشی و مطلبی کے

چرچے ہیں جہاں میں تری عالی نسبی کے


بے مثل ہیں الفاظ احادیث نبی کے

اے علم قدم چوم لے امی لقبی کے


منظور نہ تھا سرور کونین کو ورنہ

ہم ان کی حضوری میں پہنچ جاتے کبھی کے


آئے ہیں خود آقا ہی مری پیاس بجھانے

دیکھو تو یہ انداز مری تشنہ لبی کے


دربار میں آقا کے کبھی اف بھی نہ کرنا

امکان ہزاروں ہیں وہاں بے ادبی کے


چمکا سر فاراں ہے جو ایمان کا سورج

بے نور ہوئے سارے دیۓ بولہبی کے


مزمل و مدثر و یاسیں کہیں طحہ

قربان دل و جان تری خوش لقبی کے


سرکار مدینہ تو ہیں سرکار مدینہ

بے مثل ہیں اصحاب رسول عربی کے


صدیق و عمر ہوں کہ وہ عثمان و علی ہوں

سیارہ روشن ہیں میری تیرہ شبی کے


کیا نعت کہے ان کو ” ادیب ” اپنی زباں سے

یہ شعر ہیں سرکار مرے ذہن غبی کے 

 _______________


اتنی ہی میری عرض ہے اتنی ہی التجا فقط

اتنی ہی میری عرض ہے اتنی ہی التجا فقط

حشر کے دن حضور دیں اپنا مجھے بتا فقط


فرش زمین پر رہے جتنے تھے انبیاء فقط

عرش کے میہماں بنے احمد مجتبی فقط


عالم مفلسی میں تھا کوئی نہ میرا آسرا

مجھ کو حضور نے دیا جینے کا حوصلہ فقط


دیکھے تو کوئی یہ ذرا شان حبیب کبریا

جسم پہ سادہ سی عبا دوش پہ اک ردا فقط


منزل عرش و فرش میں اچھی لگی نہ کوئی جا

دل کو پسند آگیا طیبہ کا راستہ فقط


ناز عبادتوں پہ وہ اپنی کرے نہ کس لئے

جسکی جبیں یہ ثبت ہو آپ کا نقش پا فقط


سارے جہاں کی نعمتیں دے کہ نہ دے مجھے خدا

عشق مگر عطا کرے قلب بلال کا فقط


جلوۂ گیسوئے نبی زلفِ رسول ہاشمی

میرے جنونِ عشق کا تجھ سے سے ہے سلسلہ فقط


کوئی نہیں جہان میں جو دے سکے آسرا ادیب”

سب کی گزارشات کو سنتے ہیں مصطفى فقط 

 _______________


لہو میں بوئے شرافت مرے حضور کی ہے

 لہو میں بوئے شرافت مرے حضور کی ہے

مری حیات امانت مرے حضور کی ہے


ہر امتحاں سے گذر جائے گا بہ آسانی

نصیب جس کو حمایت مرے حضور کی ہے


کسے ملا ہے مقام شفاعت کبری

ہر اک نبی کو ضرورت مرے حضور کی ہے


مجھے بہشت میں جانے سے کون روکے گا

حضور میرے ہیں جنت مرے حضور کی ہے


تمھارا مرتبہ اصحاب بدر کیا کہنا

تمھارے حق میں بشارت مرے حضور کی ہے


کلیم و نوح و سلیماں ہوں یا ذبیح و خلیل

یہ مقتدی ہیں امامت مرے حضور کی ہے


علی و بوذر و سلماں غنی عمر صدیق

حسین کتنی جماعت مرے حضور کی ہے


کسی بھی موڑ پہ گمراہ ہو نہیں سکتا

جسے نصیب قیادت مرے حضور کی ہے


الجھ نہ ان کے غلاموں سے سختئ حالات

بہت ہی نرم طبیعت مرے حضور کی ہے


وہی تو باعث تخلیق ہر دو عالم ہیں

ہر ایک شئے پہ حکومت مرے حضور کی ہے


ادب سے آتے جہاں پر ہیں قدسیان فلک

وہ بزم عید ولادت مرے حضور کی ہے


تری جناب میں یہ التجا ہے عالم غیب

وہ علم دے جو وراثت مرے حضور کی ہے


عجب نہیں ہے کہ پھر جائیں تیرے دن بھی ادیب”

کرم غریبوں پہ عادت مرے حضور کی ہے

 _______________


مقابلے میں ذرا آفتاب لائے تو

مقابلے میں ذرا آفتاب لائے تو

مرے حضور کا کوئی جواب لائے تو


جو اپنی بے بصری سے بہت ہراساں ہے

وہ خاک پائے رسالت مآب لائے تو


دہائی میں کرم بے حساب کی دونگا

فرشتہ میرے گنہ کا حساب لائے تو


جو رونما ہوا سر کار دو جہاں کے طفیل

جہاں میں ایسا کوئی انقلاب لائے تو


پہنچ کے منزل قوسین میں نبی کی طرح

کوئی تجلئ وحدت کی تاب لائے تو


بدل بھی سکتا ہے پل بھر میں ظلمتوں کا مزاج

خدا سے کوئی وہ روشن کتاب لائے تو


سکون پائے مری تشنگی مگر ساقی

کہیں سے عشق نبی کی شراب لائے تو


مہک تو سکتی ہیں خوشیو سے آج بھی نسلیں

” ادیب ” ان کا پسینہ گلاب لائے تو 

 _______________


Top Categories