محمد کی سب سے نرالی ہے دنیا
پہلے خدا نے خلق کیا ان کے نور کو
پھر اس کو کائنات کا مقصد بنا دیا
رعنائیاں سمیٹ کے سارے جہان کی
قدرت نے مصطفیٰ کا حسیں قد بنا دیا
مخلوق سے خدا نے کیا خود کو جب جدا
ذات حبیب پاک کو سرحد بنا دیا
مکے کی خشک دھرتی پہ یوں کر دیا کرم
حق نے اسے حضور کا مولد بنا دیا
حد سے سوا جو ہونے لگا ناز تیرگی
خالق نے ظلمتوں کا انہیں رد بنا دیا
میں ان کا نعت گو تھا تو سرکار نے ادیب
_______________
جہاں بہت ہیں مگر یہ کرم ہے خالق کا
کہ اس جہان میں آئے محمد عربی
ترے حضور الہی میں سر جھکاتا ھوں
سمجھ کے تجھ کو خدائے محمد عربی
مجھے حیات کی اب شورشیں نہ دیں آواز
کہ میں ہو محو ثنائے محمد عربی
کبھی قیام و قعود اور کبھی رکوع و سجود
نماز کیا ہے ادائے محمد عربی
جہاں پہ کیوں نہ بھلا اسکی حکمرانی ہو
جہاں بنا ہے برائے محمد عربی
ہر امتی کو بس اک آسرا ہے محشر میں
رضائے حق ہے رضائے محمد عربی
وہ ذات جس کی گزارش پہ حشر ہو قائم
نہیں ہے کوئی سوائے محمد عربی
دکھاتا آنکھیں تو خورشید حشر کیسے ادیب”
_______________
ٹھکرا دیا ہر ایک خریدار نے مجھے
عزت ہی دی مدینے کے بازار نے مجھے
صدقہ رسول کا کہ قیامت کی بھیڑ میں
آواز دی ہے رحمت غفار نے مجھے
خادم کو تیرے مل گیا مخدوم کا خطاب
میں کیا تھا کیا بنایا ترے پیار نے مجھے
دنیا وفائے حضرت صدیق دیکھ لے
بتلا دیا ہے ثور کے یہ غار نے مجھے
ہر منکر رسول کی خاطر بے قہر حق
سمجھا دیا عمر کی یہ تلوار نے مجھے
حکم نبی پہ دید و خزانے کی کنجیاں
دی یہ خبر عنی سے حیادار نے مجھے
ملتی ہے جس سے قربت حق قربت نبی
بخشا وہ علم حیدر کرار نے مجھے
کہہ سکتا کاش ادیب” کہ مجھ سے سنی ہے نعت
_______________
آؤ پھر گنبد خضری کا تصور کر کے
اپنی خوابیدہ تمناؤں کو بیدار کریں
سامنے روضۂ اطہر تو ہے لیکن اے دل
نظریں آلودہ ہیں کس طرح سے دیدار کریں
تیرے ذروں نے ہیں چومے قدم پاک رسول
کیوں نہ اے ارضِ مدینہ تجھے ہم پیار کریں
جذبۂ عشق محمد ہے بیاں کے باہر
ہم کریں بھی تو کن الفاظ میں اظہار کریں
یوں تو میزاں بھی ہے پرسش بھی سبھی کچھ ہے مگر
ہم سمجھتے ہیں وہی ہوگا جو سر کار کریں
شاید اے گلشن طیبہ مری قسمت میں نہیں
وہ ہوائیں جو علاج دل بیمار کریں
دے یہ توفیق الہی کہ محمد کہہ کر
ہم شب و روز اسی نام کی تکرار کریں
لطف آجائے مدینے میں جو ہم جاکے ادیب
پیش سرکار کی خدمت میں یہ اشعار کریں
_______________
ہے کوئی خلق میں ذات محمدی کے سوا
کہ جس پہ صنعتِ پروردگار ناز کرے
جنوں نوازی کریں جب ہوائیں طیبہ کی
تو کیوں نہ پیرہن تار تار ناز کرے
وہ درد ہجر نبی کے سوا کچھ اور نہیں
کہ جس پہ میرا دل بیقرار ناز کرے
کہیں جواڑ کے مدینے تلک پہنچ جائے
تو اس عروج پہ میرا غبار ناز کرے
سدا بہار ہیں وہ پھول باغ طیبہ کے
پھبن پہ جن کی عروس بہار ناز کرے
ہے بیقراری کا ثمرہ جب التفات نبی
قرار کھو کے نہ کیوں بیقرار ناز کرے
خوشا نصیب دیار خلیل سے پھوٹی
وہ صبح جس پہ شب انتظار ناز کرے
الہی تیرے کرم سے ادیب” بن کے رہے
وہ راہی جس پہ نبی کا دیار ناز کرے
_______________
آئیں گے آقا تو یہ جوش بہاراں ہوگا
خار زاروں سے عیاں رنگ گلستاں ہوگا
حشر کی دھوپ سے بچنا بہت آساں ہوگا
ان کا جب سایۂ گیسوئے پریشاں ہوگا
جب کروں عرض کہ کیا درد کا درماں ہوگا
کاش سرکار یہ فرمادیں کہ ہاں ہاں ہوگا
تشنۂ دید ان آنکھوں کو مری لیتا جا
اے مدینے کے مسافر ترا احساں ہوگا
یہ سعادت تھی مگر قسمت ارضِ مکہ
منتظر ان کا تو ہر عالمِ امکاں ہوگا
ہر عمل سیرت سرکار کا آئینہ ہے
جو بھی دیکھے گا یہ آئینہ وہ حیراں ہوگا
جکی تسکین کا باعث ہو غم عشق نبی
مطمئن ہوگا وہ غم سے کہ پریشاں ھوگا
تو نے دیکھا ہی نہیں انکی عطا کا عالم
مانگ کر مانگنے والے تو پشیماں ہوگا و
عشق سرکار کا سرمایہ نہ اشکوں کے گہر
کوئی مجھ سا بھی نہیں بے سرو ساماں ہوگا
نا خدا سرور عالم ہیں تو پھر ڈرنا کیا
خود ہی طوفاں مری کشتی کا نگہباں ہوگا
عرض کرنا مرے سرکار سے اے باد صبا
کیا مرے دل کا بھی پورا کبھی ارماں ہو گا
کس قدر ہوتی ہے دشوار رہ حق کی تلاش
اس سے واقف تو دل بو ذر و سلماں ہوگا
اس گھڑی آقا ہی کام آئیں گے محشر میں ادیب”
خودترا سایہ بھی جب تجھ سے گریزاں ہوگا
_______________