madaarimedia

جلالی ہے دنیا جمالی ہے دنیا

 جلالی ہے دنیا جمالی ہے دنیا
محمد کی سب سے نرالی ہے دنیا

محمد نے فاقے کے انداز دیکر

اندھیرے سے غم کے نکالی ہے دنیا


مقام محمد کے عرفاں سے ہم نے

سنبھالی ہے عقبی بنا لی ہے دنیا


غلامان احمد نے ہے جب بھی ہے چاہا

تو قدموں پہ اپنے جھکالی ہے دنیا


جو فاقہ کریں ہو کے مولائے عالم

اب ایسوں سے واللہ خالی ہے دنیا


حقیقت بناتا ہے فرض مسلمان

یہ مانا طلسمِ خیالی ہے دنیا


” ادیب ” ہم نے صدقے میں اپنے نبی کے

نگاہوں سے آخر گرالی ہے دنیا

 _______________


یہ تو مرضی پہ ہے انکی کہ وہ کب دیتے ہیں

یہ تو مرضی پہ ہے انکی کہ وہ کب دیتے ہیں

کچھ اگر منھ سے نہ مانگو تو وہ سب دیتے ہیں


کاش کہدیں مرے سرکار کہ جا دیوانے

ہم جنوں کو ترے صحرائے عرب دیتے ہیں


پردہ داری جو ہے منظور تو اسرار خدا

محزن علم کو امی کا لقب دیتے ہیں


دیکھیے سرور کونین کا انداز عطاء

خود کرم کرتے ہیں خود ظرف طلب دیتے ہیں


ان کی بخشش میں کم و بیش کا شکوہ کیسا

جھولیاں تنگ ہی ملتی ہیں وہ جب دیتے ہیں


یوں بڑھا دیتے ہیں درجات مدینے والے

جس پہ کرتے ہیں کرم قربت رب دیتے ہیں


میں کہاں اور کہاں خونِ رسالت کا وقار

کتنا دھو کہ یہ مجھے نام و نسب دیتے ہیں


کیوں نہ مانگے یہاں دنیا کے بہ ایمائے رسول

جس کو دیتے ہیں شہنشاہ حلب دیتے ہیں


یہ عنایت ہے ادیب ان کی کہ وہ ہم جیسے

بے ادب لوگوں کو توفیق ادب دیتے ہیں 

 _______________


ان کو امین رتبہ بے حد بنا دیا

 
ان کو امین رتبہ بے حد بنا دیا
احمد تھے وہ خدا نے محمد بنا دیا

پہلے خدا نے خلق کیا ان کے نور کو
پھر اس کو کائنات کا مقصد بنا دیا

رعنائیاں سمیٹ کے سارے جہان کی
قدرت نے مصطفیٰ کا حسیں قد بنا دیا

مخلوق سے خدا نے کیا خود کو جب جدا
ذات حبیب پاک کو سرحد بنا دیا

مکے کی خشک دھرتی پہ یوں کر دیا کرم
حق نے اسے حضور کا مولد بنا دیا

حد سے سوا جو ہونے لگا ناز تیرگی
خالق نے ظلمتوں کا انہیں رد بنا دیا

میں ان کا نعت گو تھا تو سرکار نے ادیب

تاباں ہے نور سے مرا مرقد بنا دیا

 _______________

جلوہ جو رو پوش تھا وہ رونما کیسے ہوا


جلوہ جو رو پوش تھا وہ رونما کیسے ہوا

نور وحدت تھا تو کثرت آشنا کیسے ہوا


بات تھی اس کے کرم کی کچھ نہ تھے برق و براق

ورنہ پھر طئے لامکاں کا فاصلہ کیسے ہوا


پایا تھا جب زائرِ طیبہ نے اذن واپسی

سوچتا ہوں وہ مدینے سے جدا کیسے ہوا


غرق حیرت کرگئی نوری فرشتوں کی یہ بات

پیکر خاکی تھا مطلوب خدا کیسے ہوا


واقعہ شق القمر کا جو نہ آتا ہو یقیں

آسماں سے پوچھ لو یہ کب ہوا کیسے ہوا


تیرگئ کفر نے یہ صاف روشن کر دیا

انعكاس جلوه نور الھدی کیسے ہوا


یہ بتاتا ہے ہہیں اخلاق ختم المرسلیں

ختم یہ جور و جفا کا سلسلہ کیسے ہوا


شک نہیں تاثیر میں اس کی مگر یہ تو بتاؤ

نالہ در بار رسالت میں رسا کیسے ہوا


کانپ جاتے ہیں وہاں جاکر فرشتوں کے قدم

باب خضری تک گزر باد صبا کیسے ہوا


جو نہ تھا اعلان اکملت میں پنہاں کوئی راز

مضطرب صدیق سا رمز آشنا کیسے ہوا


کان میں پہنچی نہ تھی طیبہ سے جو صوت عمر

با خبر خطرے سے گوشِ ساریہ کیسے ہوا


چھپ نہیں سکتی شہادت جامع قرآن کی

آیتیں بتلائیں گی یہ واقعہ کیسے ہوا 

 _______________


ہر ایک دل میں ہے جائے محمد عربی

 
ہر ایک دل میں ہے جائے محمد عربی
ہر ایک جاں ہے فدائے محمد عربی

جہاں بہت ہیں مگر یہ کرم ہے خالق کا
کہ اس جہان میں آئے محمد عربی

ترے حضور الہی میں سر جھکاتا ھوں
سمجھ کے تجھ کو خدائے محمد عربی

مجھے حیات کی اب شورشیں نہ دیں آواز
کہ میں ہو محو ثنائے محمد عربی

کبھی قیام و قعود اور کبھی رکوع و سجود
نماز کیا ہے ادائے محمد عربی

جہاں پہ کیوں نہ بھلا اسکی حکمرانی ہو
جہاں بنا ہے برائے محمد عربی

ہر امتی کو بس اک آسرا ہے محشر میں
رضائے حق ہے رضائے محمد عربی

وہ ذات جس کی گزارش پہ حشر ہو قائم
نہیں ہے کوئی سوائے محمد عربی

دکھاتا آنکھیں تو خورشید حشر کیسے ادیب”

تھی میرے سر پہ ردائے محمد عربی

 _______________

جب دی اماں نہ سایۂ دیوار نے مجھے

جب دی اماں نہ سایۂ دیوار نے مجھے
دامن میں لے لیا مرے سرکار نے مجھے

ٹھکرا دیا ہر ایک خریدار نے مجھے
عزت ہی دی مدینے کے بازار نے مجھے

صدقہ رسول کا کہ قیامت کی بھیڑ میں
آواز دی ہے رحمت غفار نے مجھے

خادم کو تیرے مل گیا مخدوم کا خطاب
میں کیا تھا کیا بنایا ترے پیار نے مجھے

دنیا وفائے حضرت صدیق دیکھ لے
بتلا دیا ہے ثور کے یہ غار نے مجھے

ہر منکر رسول کی خاطر بے قہر حق
سمجھا دیا عمر کی یہ تلوار نے مجھے

حکم نبی پہ دید و خزانے کی کنجیاں
دی یہ خبر عنی سے حیادار نے مجھے

ملتی ہے جس سے قربت حق قربت نبی
بخشا وہ علم حیدر کرار نے مجھے

کہہ سکتا کاش ادیب” کہ مجھ سے سنی ہے نعت

طیبہ بلا کے احمد مختار نے مجھے

 _______________

روح تشنہ کو مئے عشق سے سرشار کریں

 
روح تشنہ کو مئے عشق سے سرشار کریں
آؤ کچھ تذکرۂ احمد مختار کریں

آؤ پھر گنبد خضری کا تصور کر کے
اپنی خوابیدہ تمناؤں کو بیدار کریں

سامنے روضۂ اطہر تو ہے لیکن اے دل
نظریں آلودہ ہیں کس طرح سے دیدار کریں

تیرے ذروں نے ہیں چومے قدم پاک رسول
کیوں نہ اے ارضِ مدینہ تجھے ہم پیار کریں

جذبۂ عشق محمد ہے بیاں کے باہر
ہم کریں بھی تو کن الفاظ میں اظہار کریں

یوں تو میزاں بھی ہے پرسش بھی سبھی کچھ ہے مگر
ہم سمجھتے ہیں وہی ہوگا جو سر کار کریں

شاید اے گلشن طیبہ مری قسمت میں نہیں
وہ ہوائیں جو علاج دل بیمار کریں

دے یہ توفیق الہی کہ محمد کہہ کر
ہم شب و روز اسی نام کی تکرار کریں

لطف آجائے مدینے میں جو ہم جاکے ادیب
پیش سرکار کی خدمت میں یہ اشعار کریں

 _______________


جو دل کو طیبہ پہ کر کے نثار ناز کرے

 
جو دل کو طیبہ پہ کر کے نثار ناز کرے
نہ اس پہ کیوں نگہ کردگار ناز کرے


ہے کوئی خلق میں ذات محمدی کے سوا
کہ جس پہ صنعتِ پروردگار ناز کرے

جنوں نوازی کریں جب ہوائیں طیبہ کی
تو کیوں نہ پیرہن تار تار ناز کرے

وہ درد ہجر نبی کے سوا کچھ اور نہیں
کہ جس پہ میرا دل بیقرار ناز کرے

کہیں جواڑ کے مدینے تلک پہنچ جائے
تو اس عروج پہ میرا غبار ناز کرے

سدا بہار ہیں وہ پھول باغ طیبہ کے
پھبن پہ جن کی عروس بہار ناز کرے

ہے بیقراری کا ثمرہ جب التفات نبی
قرار کھو کے نہ کیوں بیقرار ناز کرے

خوشا نصیب دیار خلیل سے پھوٹی
وہ صبح جس پہ شب انتظار ناز کرے

الہی تیرے کرم سے ادیب” بن کے رہے
وہ راہی جس پہ نبی کا دیار ناز کرے

 _______________


حشر کے روز وہی سب سے نمایاں ہوگا

حشر کے روز وہی سب سے نمایاں ہوگا
دامن رحمت عالم میں جو پنہاں ہوگا

آئیں گے آقا تو یہ جوش بہاراں ہوگا
خار زاروں سے عیاں رنگ گلستاں ہوگا

حشر کی دھوپ سے بچنا بہت آساں ہوگا
ان کا جب سایۂ گیسوئے پریشاں ہوگا

جب کروں عرض کہ کیا درد کا درماں ہوگا
کاش سرکار یہ فرمادیں کہ ہاں ہاں ہوگا

تشنۂ دید ان آنکھوں کو مری لیتا جا
اے مدینے کے مسافر ترا احساں ہوگا

یہ سعادت تھی مگر قسمت ارضِ مکہ
منتظر ان کا تو ہر عالمِ امکاں ہوگا

ہر عمل سیرت سرکار کا آئینہ ہے
جو بھی دیکھے گا یہ آئینہ وہ حیراں ہوگا

جکی تسکین کا باعث ہو غم عشق نبی
مطمئن ہوگا وہ غم سے کہ پریشاں ھوگا

تو نے دیکھا ہی نہیں انکی عطا کا عالم
مانگ کر مانگنے والے تو پشیماں ہوگا و

عشق سرکار کا سرمایہ نہ اشکوں کے گہر
کوئی مجھ سا بھی نہیں بے سرو ساماں ہوگا

نا خدا سرور عالم ہیں تو پھر ڈرنا کیا
خود ہی طوفاں مری کشتی کا نگہباں ہوگا

عرض کرنا مرے سرکار سے اے باد صبا
کیا مرے دل کا بھی پورا کبھی ارماں ہو گا

کس قدر ہوتی ہے دشوار رہ حق کی تلاش
اس سے واقف تو دل بو ذر و سلماں ہوگا

اس گھڑی آقا ہی کام آئیں گے محشر میں ادیب”
خودترا سایہ بھی جب تجھ سے گریزاں ہوگا

 _______________


جہاں میں نورِ رسالت مآب آتا ہے


جہاں میں نورِ رسالت مآب آتا ہے

مٹے گی ظلمت شب آفتاب آتا ہے


بشکل پیکر رحمت خدا کی جانب سے

ستم کشوں کی فغاں کا جواب آتا ہے


نئے اصول و ضوابط حیات کو دینے

جہاں میں صاحب ام الکتاب آتا ہے


اب اپنی کشتِ تمنا بھی لہلہائے گی

برسنے خشک زمیں پر سحاب آتا ہے


چلا یہ آس لئے ہوں کہ پوچھ لیں آقا

یہ کون ہے جو بحال خراب آتا ہے


میں کیسے پیش کروں اپنا نامہ اعمال

خطا شعار ہوں آقا حجاب آتا ہے


ادیب ” ختم رسل کا تھا معجزه ورنہ

جبلتوں میں کہاں انقلاب آتا ہے 

 _______________


Top Categories