madaarimedia

ہر زمانہ میرے حضور کا ہے

 ہر زمانہ میرے حضور کا ہے

کیا ٹھکانہ میرے حضور کا ہے


فاطمہ و علی حسین و حسن

یہ گھرانہ میرے حضور کا ہے


رزق دیتا خدا ہے ان کے طفیل

دانہ دانہ میرے حضور کا ہے


باب رحمت زمانے بھر کے لیے

آستانہ میرے حضور کا ہے


خوف کیا حشر میں کہ سایہ فگن

شامیانہ میرے حضور کا ہے


صرف ان کو بشر سمجھ لینا

دل دکھانا میرے حضور کا ہے


کافی تسکین دل کو اے شہرت

یاد آنا میرے حضور کا ہے
 —-

نور کی ہے جاگیر مدینے کی دھرتی

 نور کی ہے جاگیر مدینے کی دھرتی

عرش کی ہے تصویر مدینے کی دھرتی


ایک انوکھی آیت ہے مکی مدنی

اور اس کی تفسیر مدینے کی دھرتی


دل کا چین دماغ کی راحت روحی مزاج

آنکھوں کی تنویر مدینے کی دھرتی


کوئی ایسا خواب میں دیکھوں اے شہرت

ہو جس کی تعبیر مدینے کی دھرتی
 —-

دلوں میں پیار کس درجہ مدار العالمیں کا ہے

 دلوں میں پیار کس درجہ مدار العالمیں کا ہے

جسے دیکھو وہی شیدا مدار العالمیں کا ہے


علی بصری حبیب و بایزید حضرت بدیع الدین

بہت ہی مختصر شجرہ مدار العالمیں کا ہے


کوئی اعجاز دیکھے نور والے کی ہتھیلی کا

منور کس قدر چہرہ مدار العالمیں کا ہے


صدائیں گونجتی ہیں ہند میں اللہ اکبر کی

جو سچ پوچھو تو یہ صدقہ مدار العالمیں کا ہے


مدار العالمیں کے منکروں کا حشر کیا ہوگا

شفیع حشر سے رشتہ مدار العالمیں کا ہے


نظامی قادری چشتی سہروردی کہ ہوں نوری

سبھی کو سلسلہ پہنچا مدار العالمیں کا ہے


میرے سرکار نے شہرت نہ چھوڑی سرزمین کوئی

جہاں دیکھو وہاں چلہ مدار العالمیں کا ہے
 —-

مہکی ہوئی فضا ہے دیار مدار میں

 مہکی ہوئی فضا ہے دیار مدار میں

خوشبوئے مصطفی ہے دیار مدار میں


سیراب کر رہا ہے جو ہر تشنہ کام کو

دریا وہ بہہ رہا ہے دیار مدار میں


ہوتا گماں ہے طیبہ کی صبح حسین کا

وہ نور وہ ضیا ہے دیار مدار میں


منکر منافقت کا جو تجھ کو لگا ہے روگ

اس کی فقط دوا ہے دیار مدار میں آئے


آئے ہیں استواریئ نسبت کو اولیاء

میلہ سا اک لگا ہے دیار مدار میں


منکر کو بھی نگاہ بصیرت نصیب ہو

شہرت یہی دعا ہے دیار مدار میں
 —-

ملا علی کا گھرانہ کہ ہم مداری ہیں

 ملا علی کا گھرانہ کہ ہم مداری ہیں
بنیں نہ کیسے نشانہ کہ ہم مدری ہیں

فلک پہ چاند ستارے بھی دیکھیے مل کر

یہ گا رہے ہیں ترانہ کہ ہم مدار ہیں


اگر سمجھ لے مدار جہاں کی عظمت کو

کہے گا سارا زمانہ کہ ہم مداری ہیں


طواف روضے کا کرتی ہیں یوں ابابیلیں

ہو جیسے ان کو جتانا کہ ہم مداری ہیں


ہمیں ملی ہے حسینی ادا وراثت میں

ہے کھیل سر کو کٹانا کہ ہم مداری ہیں


ہمارے پاس ہے عشق مدار کی دولت

ہے ٹھوکروں میں خزانہ کہ ہم مداری ہیں


قسم خدا کی یہ نعمت ہے دو جہاں کے لیے

کسی سے تم نہ چھپانا کہ ہم مداری ہیں


نبی سے رابطہ رکھنے کی آرزو ہو اگر

تو ہم سے ملنا ملانا کہ ہم مداری ہیں


کوئی یہ پوچھے کہ شہرت ہے تیری کیا نسبت

اسے بس اتنا بتانا کہ ہم مداری
 —-

شاہوں کے دامن بھرتا ہوں مجھے ایسا ویسا مت سمجھو

 شاہوں کے دامن بھرتا ہوں مجھے ایسا ویسا مت سمجھو

میں قطب جہاں کا منگتا ہوں مجھے ایسا ویسا مت سمجھو


مشہود ہیں میرے گنگ و چمن کہتا ہے یہ دریائے ایسن

میں قطب جہاں کا صدقہ ہوں مجھے ایسا ویسا مت سمجھو


ہر آن تصور میں میرے رہتا ہے یہی نوری روضہ

رکھے ہوئے دل میں کعبہ ہوں مجھے ایسا ویسا مت سمجھو


رہتے ہیں یہاں ہر شاہ ولا کہتا ہے مکن پر کا قصبہ

میں طیبہ نگر کا ٹکڑا ہوں مجھے ایسا ویسا مت سمجھو


کیوں ہاتھ پساروں میں دردر کیوں جاؤں میں غیروں کے در پر

سرکار پہ جیتا مرتا ہوں مجھے ایسا ویسا مت سمجھو


سب کیوں نہ کریں میری عزت کیسے نہ ملے مجھ کو شہرت

آقا کے مناقب پڑھتا ہوں مجھے ایسا ویسا مت سمجھو
—-

اے کرب و بلا تو آنکھیں بچھا آئے ہیں نبی کے گھر والے

 اے کرب و بلا تو آنکھیں بچھا آئے ہیں نبی کے گھر والے

چمکا تیری قسمت کا تارا آئے ہیں نبی کے گھر والے بے


دین کو دکھلانے نیچا آئے ہیں نبی کے گھر والے

اسلام کا سر کرنے اونچا آئے ہیں نبی کے گھر والے


گھربار لٹا دیں گے اپنا سر حق پہ کٹا دیں گے اپنا

سینے میں لیے بس یہ جذبہ آئے ہیں نبی کے گھر والے


کربل میں دھوپ ہے شدت کی مرجھانا سکے گلہائے نبی

تو آج کہاں ہے کالی گھٹا آئے ہیں نبی کے گھر والے


اس دل کو چین ملے کیسے پیاسوں کی پیاس بجھے کیسے

حسرت سے یہ کہتا تھا دریا آئے ہیں نبی کے گھر والے


ہر سمت ہے شہرت زور و جفا پھر بھی نہیں ہونٹوں پر شکوہ

سمجھانے یہی مفہوم وفا آئے ہیں نبی کے گھر والے

—-

غم زندگی اٹھانا شہ کربلا سے پوچھو

 غم زندگی اٹھانا شہ کربلا سے پوچھو

وہ ستم پہ مسکرانا شہ کربلا سے پوچھو


وہی بچپنے میں وعدہ جو کیا رسول نے تھا

وہ بتائے کیا زمانہ شہ کربلا سے پوچھو


ہ یزید کی جفا تھی کہ یہ مرضئِ خدا تھی

چھٹا کیسے آب و دانہ شہ کربلا سے پوچھو


بخدا ہے کتنی مشکل یہ عبادتوں کی منز

تہ تیغ سر جھکانا شاہ کربلا سے پوچھو


کبھی ظلم سر اٹھائے کبھی برچھیوں کے سائے

وہ سجود والہانہ شہ کربلا سے پوچھو


شب غم کی وہ سیاہی وہ حرم کی بے ردائی

وہ لٹا لٹا گھرانہ شہ کربلا سے پوچھو


کہاں اتنی مجھ میں ہمت جو بیاں کروں میں شہرت

غم دل کا یہ فسانہ شہ کربلا سے پوچھو
—-

آل پیغمبر کی وہ تشنہ دہانی یاد ہے

 آل پیغمبر کی وہ تشنہ دہانی یاد ہے

کربلا کیا تجھ کو پیاسوں کی کہانی ہے


موجیں لہرا کر اٹھیں اور سر پٹک کر رہ گئیں

تیری مجبوری بھی اے دریا کے پانی یاد ہے


کیوں نہ پھر کہتا ہوا لبیک حر آئے نکل

اس کو وہ آل نبی کی مہربانی یاد ہے


زندگی بھر پیار سے بھائی کو آقا ہی کہا

حضرت عباس کی وہ رتبہ دانی یاد ہے


ہائے وہ پرنور سینہ اور برچھی کی انی

اب بھی دل والوں کو اکبر کی جوانی یاد ہے


بھول بیٹھی ساری دنیا تیرا افسانہ یزید

واقعہ شبیر کا سب کو زبانی یاد ہے


کربلا میں جو فدا شہرت ہوئی شبیر پر

ساری دنیا کو حسن کی وہ نشانی یاد ہے
—-

Top Categories