madaarimedia

کرونا وائرس لاک ڈاؤن میں نماز کیسے پڑھیں؟

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسلۂ ذیل میں کہ موجودہ حالات میں کرونا وائرس جیسی خطرناک و مہلک بیماری سے بچنے کےلیےحکومت نے پورے ملک میں لاک ڈاؤن جنتاکرفیو دفعہ۱۴۴/ نافذ کردیا ہے جس کی وجہ سے۵/ افراد ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے ہیں قانوناً جرم ہے، اس بنیاد پر تمام دھرم کی عبادت گاہوں کے ساتھ ساتھ مسجدوں میں بھی تالے لگ گئے ہیں صرف۴/لوگوں کی اجازت ہے اگر مسجد میں زیادہ لوگ جمع ہوتے ہیں تو کیس درج کردیا جاتا ہے اور بعض جگہ بھیڑ کی وجہ سے مسجد سے نکال نکال کر پیٹا گیا ہے تو انتظامیہ کی نافذ پابندیوں سے حقِ مسجد تو ادا ہوجاتا ہے اور نمازِ پنجگانہ سے مسجدیں آباد بھی ہیں مگر جمعہ کا مسئلہ بہت پیچیدہ نظر آتا ہے کہ جمعہ کےلیے’’اذن عام‘‘ کی شرط ہے یعنی دروازہ کا کھلا رہنا بلا روک ٹوک موجودہ حالات میں دروازہ کھولا نہیں جاسکتا ہےورنہ عوامی اژدھام کا اندیشۂ مرض بھی ہے اور قانونی دشواری کا باعث بھی ہے۔ لہٰذا اس صورت حال میں دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا بحالتِ مجبوری چند لوگ مسجد کا دروازہ بند کر کے نماز جمعہ ادا کرلیں؟ نیز ایسے سنگین حالات لاک ڈاؤن کیوجہ سے چند لوگوں کے ساتھ کسی کے مکان میںنمازِ جمعہ اداکریں تو اس کی اجازت ہوگی یا نہیں؟قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرما کر عنداللہ ماجور ہوں۔
المستفتی :حافظ محمد ابوطلحہ قادری،ممبئی ،مہاراشٹرا


{HDI.R.1/798}ااَلْجَوَابُـــــــــــــ: بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ:
(۱)جمعہ قائم کرنے کےلیے کم ازکم چار افراد ہوں، ایک امام تین مقتدی اور اذن عام بھی ہو تو نمازِ جمعہ صحیح و درست ہے۔ موجودہ

تشویشناک حالات میں لاک ڈاؤن جنتا کرفیو کے سبب مساجد کے دروازوں کا بند کرنا یہ انسانوں کو کرونا وائرس (جراثیم) کے مضر و مہلک اثرات سے بچانے اور قانونی دشواری سے حفاظت کےلیے ہے نہ کہ نماز و جماعت سے روکنے کے لیے، لہٰذامسجد کادروازہ بند کرنا نمازِ جمعہ کے ساتویں شرط’’اذنِ عام‘‘ کے منافی نہیں ہے جیسا کہ عورتوں کا اندیشۂ فتنہ اور موذی کا اندیشۂ ایذا کے سبب مسجد میں آنے کی ممانعت ہے جو اذن عام کے منافی نہیں اور جمعہ صحیح و درست ہے، ویسے ہی کروناوائرس کے ضرر و ہلاکت کی وجہ سے اورعام انسانی برادری کو قرب و اختلاط سے روکنے کےلیےدروازۂ مسجد بند کرنا اذن عام کے منافی نہیں ہے۔

در مختار میں ہے:فَلَا یَضُرُّ غَلْقُ بَابِ الْقَلْعَةِ لِعَدُوٍّ اَوْ لِعَادَةٍ قَدِیْمَةٍ لِاَنَّ الْاِذْنَ الْعَامَّ مُقَرَّرٌ لِاَھْلِہِ وَ غَلْقُہُ لِمَنْعِ الْعَدُوِّ لَا الْمُصَلِّی نَعَمْ لَوْلَمْ یُغْلَقْ لَکَانَ أَحْسَنَ کَمَا فِیْ مَجْمَعِ الْاَنْھَرِمَعْزِیَّالِشَرْحِ عُیُوْنِ الْمَذَاھِبِ‘‘۔ [در المختار،ج:اوّل،ص:۶۰۱، باب الجمعۃ] ترجمہ: کسی دشمن کی وجہ سے یا قدیم تعامل کی وجہ سے قلعہ کا گیٹ بند کردینا اذن عام میں مضر نہیں ہے اس لئے کہ اذن عام اہل شہر کےلیے ثابت ہے اور گیٹ بند کرنا دشمن کو روکنے کےلیے ہے، ہاں اگر گیٹ بند نہ کیا جائے تو اچھا ہوگا جیسا کہ مجمع الانہرشرح عیون المذاہب کے حوالےسے ہے۔ اسی طرح ردالمحتار میں ہے:فَلَایَضُرُّ اِغْلَاقُہُ لِمَنْعِ عَدُوٍّ أَوْ لِعَادَةٍ کَمَا مَرَّ۔ط۔[طحطاوی ردالمحتار۔ ج :اول، ص:۶۰۱، باب الجمعۃ] ترجمہ: دشمن کو روکنے کےلیےیا قدیم تعامل کی وجہ سے حاکم کا قلعہ کا گیٹ بند کرانا اذن عام میں خلل انداز نہیں۔

(۲) جمعہ قائم کرنے کا اختیارسلطانِ اسلام یا اُس کےنائب کوہے ایسا نہیں ہے کہ دو چار لوگ کسی کو امام مقرر کر کے جمعہ قائم کرلیں۔جمعہ کو دیگر نمازوں کی طرح سمجھنا کہ جس نے چاہا نیا جمعہ قائم کرلیا اور جس نے چاہا پڑھا دیا یہ نا جائز ہے کہ جمعہ شعائر ِاسلام سے ہے اور جامع جماعت ہے گھر گھر ہونے سے وہ شوکت اسلامی باقی نہیں رہتی جو اجتماع میں ہوتی ہے یہ تو شہر میں دفعِ حرج کےلیے تعدّد جائز رکھا گیا ہے، تو خواہ مخواہ جماعت پراگندہ کرنا اور گھر گھر جمعہ قائم کرنا ہرگز مناسب نہیں ہے۔اور یہ بھی واضح رہے کہ وجوب ِجمعہ کےلیے گیارہ شرطیں ہیں ان میں سے اگر ایک بھی نہ پائی گئیں تو واجب نہیں مگر پڑھے گا تو ہوجائے گی ان میں سے (دسویں شرط ہے خوف کا نہ ہونا) اگر بادشاہ یا چور وغیرہ کسی ظالم کا ڈر ہے یا مفلس قرضدار کو قید ہونے کا ڈر ہے تو اس پر جمعہ واجب نہیں تو جب ایسے حالات میں اجتماعیت سے وائرس کے منتقل ہونے کا خوف و اندیشہ ہے نیزدوسری طرف قید و بند اس پر مستزاد ہے تو ایسی صورت میں جمعہ واجب نہیں بلکہ اپنے اپنے گھروں میں تنہا تنہانمازِ ظہرادا کریں۔

طحاوی شریف میں ہے :ولایقوم بہا الا ذو سلطان ‘‘۔ [مختصرالطحاوی ،ص:۳۵، المعارف النعمانیۃ حیدرآباد] مختصرالقدوری میںہے:ولاتجوزاقامتہاالابالسلطان اومن امرہ السلطان‘‘۔ [مختصرالقدوری،ص:۱۰۱، مؤسسۃالریان] امام ابوالبرکات نسفی علیہ الرحمہ فرماتےہیں:والسلطان او نائبہ‘‘۔ [کنزالدقائق، ص:۱۸۹، دارالبشائرالاسلامیۃ / کتاب الکافی فی شرح الوافی، ص:۹۸، مخطوطۃ] امام ابراہیم حلبی علیہ الرحمہ فرماتےہیں:لاتصح الابستۃ شروط المصراوفناءہ والسلطان اونائبہ ‘‘۔ [ملتقی الابحر،ص:۱۳۳،دارالبیروتی]صدرالشریعہ امام عبیداللہ بن مسعود علیہ الرحمہ فرماتےہیں: والسلطان او نائبہ‘‘۔ [نقایۃ، ص:۴۶،مخطوطۃ، جامعۃ الملک السعود] امام عبداللہ موصلی علیہ الرحمہ فرماتےہیں :ولابد من السلطان او نائبہ‘‘۔ [مختار مع الاختیار، ج:۱،ص:۲۷۴،الرسالۃالعالمیۃ] امام مظفرالدین ابن ساعاتی علیہ الرحمہ فرماتےہیں: ونشرط المصراوفناءہ والوالی‘‘۔ [مجمع البحرین وملتقی النیرین، ص:۱۵۹،دارالکتب العلمیۃ] علامہ شرنبلالی علیہ الرحمہ فرماتےہیں :ویشترط لصحتہا ستۃ اشیآء المصراو فناءہ والسلطان او نائبہ‘‘کہ جمعہ کےشرائط میں سلطان اسلام یا اس کےنائب کاہوناہے‘‘۔ [نورالایضاح، ص:۲۶۳، مکتبۃالمدینۃ] امام ابواللیث سمرقندی رضی اللہ عنہ فرماتےہیں: وان اجتمعت العامۃ علی ان قدموارجلالم یامرالقاضی بہ ولاخلیفۃالمیت لم یکن لہم جمعۃ‘‘کہ عام لوگ جمع ہوئے اورکسی ایسے آدمی کو امامت کےلیےبڑھادیا جونہ تو قاضی کاماذون تھانہ ہی مرنےوالےسلطان کانائب تھا توان کاجمعہ نہیں ہوگابایںہمہ کہ ہمارا ہندستان دارالاسلام ہے مگریہاں نہ توبادشاہ اسلام ہےنہ اس کانائب، فہلذایہاںاعلم علمائےبلدبادشاہ اسلام کاقائم مقام ہے۔ [عیون المسائل، ص:۳۰،دارالکتب العلمیۃ] تنویر الابصار و درمختار میں ہے: یشترط لصحتھاسبعۃ اشیاءالاوّل المصروفناءوالثانی السلطان اومامورہ باقامتھا ‘‘۔کہ صحت ِجمعہ کے لئے سات چیزیں شرط ہیں: ایک یہ شہر اور فناء شہر، دوسری سلطان یااقامت جمعہ پر اس کی طرف سے کوئی مامور ہو۔[درمختار ،باب الجمعہ، مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی]مذکورہ دلائل و تشریحات سے

واضح ہواکہ چندلوگوں کےساتھ اس طرح کسی کےمکان میںجمعہ قائم کرنا درست نہیںاورنہ ہی اس کی اجازت ہے۔ لہذامسلمانوں کو چاہیے کہ حکومتِ ہندنے جتنے لوگوں کو جمعہ اورجماعت مسجد میں قائم کرنے کی اجازت دی ہے اس پر عمل کریںاور باقی لوگ اپنے اپنے گھروں میں جمعہ کے بدلے تنہا تنہانمازِ ظہر پڑھیں،ورنہ خلاف ورزی کی صورت میں اسلام و مسلمان کی عزّت و آبرو پر آنچ آسکتی ہے ۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَمﷺ
کتبــــــــــــــــــــ سید مشرف عقیل غفرلہ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــہ
ہاشمی دارلافتاوالقضا،موہنی شکرہولی ،تھانہ: نانپور،ضلع :سیتامڑھی ،بہار(الہند)
۰۵/شعبان المعظم ۱۴۴۱ ؁ھ/مطابق ۳۱/مارچ ۲۰۲۰؁ءبروزِمنگل

Leave a Comment

Related Post

Top Categories