دلالی کا حکم

دلالی کا حکم

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام مسئلہ ھٰذا کے بارے میں کہ زید عمرو کو دکان سے کوئی چیز خریدواتا ہے اور زید صاحبِ ِدکان سے عمرو کے خریدی ہوئی چیز سے کمیشن لیتا ہے عمرو کو بتائے بغیر۔
زید کا ایسا کرنا عند الشرع کیسا ہے مدلل و مفصل جواب ارشاد فرماکر عند اللہ ماجور ہوں۔

سائل:غلام سرور یوپی

الجواب
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ تعالیٰ و برکاتہ
زید کا عمرو کو دکان سے کوئی چیز دلانا اور صاحب دکان سے عمرو کی خریدی ہوئی چیز پر کمیشن لینا عرف عام میں دلالی اور سمسار کہلاتا ہے،اگر عقد سے پہلے دلالی کی اجرت متعین تھی،اور زید نے صاحب دکان کی چیز فروخت کرانے میں دوڑ بھاگ بھی کی تھی،تو زید کو دلالی کی اجرت(کمیشن) لینا جائز ہے،اسے لینے میں کوئی حرج نہیں،ہاں اگر زید نے دوڑ بھاگ نہیں کی،بلکہ بآسانی فقط تعارف کرانے سے معاملہ طے پایا،یا دلالی کی اجرت متعین نہ تھی،تو دلالی جائز نہیں۔

مبسوط میں ہے
قال رحمه الله:ذكر حديث قيس بن أبى غرزة الكناني،قال كنا نبتاع الأوساق بالمدينة و نسمى أنفسنا السماسرة،فخرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم،فسمانا باسم هو أحسن من إسمنا،قال صلى الله عليه و سلم:يا معشر التجار!إن البيع يحضره اللغو و الحلف،فشوبوه بالصدقة و السمسار إسم لمن يعمل للغير بالأجر بيعا و شراء و مقصوده من إيراد الحديث بيان جواز ذلك و لهذا بين فى الباب طريق الجواز
(کتاب المبسوط للسرخسی،ص:114-115،دار المعرفۃ بیروت)

فتاویٰ تاتاخانیہ میں ہے
و فى متفرقات العتابية أخذ الدلال الدلالي ثم استحق بالمبيع و رد بالعيب بقضاء أو بغير قضاء لا يسترد منه الدلالى و قال الصدر الشهيد حسام الدين به أفتى والدى
(فتاویٰ تاتارخانیہ،ج:9،ص:440،کتاب البیوع،فصل فی المتفرقات،مکتبہ رشیدیہ دیوبند)

رد المحتار میں مجتبیٰ کے حوالے سے ہے
صك الصراف و السمسار حجة عرفا
(رد المحتار،ج:8،ص:137،کتاب القضاء،باب کتاب القاضی الی القاضی و غیرہ،مطلب:فی دفتر البیاع و الصراف و السمسار،دار الکتب العلمیہ بیروت)

محیط برہانی میں ہے
رجل قال للدلال:إعرض ضيعتي فعرض و لم يقدر الدلال على إتمام العمل و و باعها دلال أخر،قال الفقيه أبو القاسم رحمه الله إن كان الأول قد عرضها و ذهب له فى ذلك دور جار يعتد به،فأجر المثل له واجب بقدر عنائه و عمله
(المحیط البرھانی،ج:7،ص:485،کتاب الاجارات،دار الکتب العلمیہ بیروت)

فتاوی تاتاخانیہ میں ہے
و أجرة السمسار تضم إن كانت مشروطة فى العقد بالإجماع،و إن لم تكن مشروطة بل كانت مرسومة أكثر المشايخ على أنه يضم
)فتاوی تاتاخانیہ،ج:9،ص:235،کتاب البیوع،باب مایلزم من السلعۃ للمشتری،مکتبہ رشیدیہ دیوبند(

فتح الباری میں ہے
يجوز أن يكون سمسارا فى بيع الحاضر للحاضر و لكن شرط الجمهور أن تكون الأجرة معلومة
(فتح الباری،ج:4،ص:569،کتاب الاجارۃ،دار الکتب العلمیہ بیروت)

والله تعالیٰ اعلم۔

كتبه
محمد اکبر خان مداری غفر لہ
سابق مدرس مدرسہ مدار العلوم گووندہ پور بریلی
13/رجب المرجب 1443ھ

الجواب صحیح
خوشنود خان مداری عفی عنہ
صدر المدرسین مدرسۂ مذکورہ و ناظم اعلیٰ دار الافتا مداریہ

ماخوذ : فتاوی مداریہ ، جلد اول ، صفحہ ٥٥٠

Tagged:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *