دور غم گزار مسرت کا زمانہ آگیا
آنسوؤں پر اب مجھے بھی مسکرانا آگیا
دیکھی بھی جاتی کہاں تک بجلیوں کی بے رخی
سوز کی منزل پہ خود ہی آشیانہ آگیا
ماجرائے غم گئی گزری ہوئی سی بات تھی
وہ تو کہیے سامنے میرے فسانہ آگیا
جب کسی مجبور پر ٹوٹا کوئی تازہ ستم
ہاتھ اک دنیا کو ہنسنے کا بہانہ آگیا
زخم جب احساس کے کچھ مندمل ہونے لگے
وقت پھر لے کر نیا اک تازیانہ آگیا
کیف محرومی نے وہ بخشی ہے اسودہ دلی
دامن امید میں جیسے خزانہ آگیا
توڑ ڈالے نا امیدی نے رباب دل کے تار
اب جوانی پر مرے غم کا ترانہ آگیا
اب جنون رہبری کا حشر کیا ہوگا نیاز
اب شکستِ پائے ہمت کا ٹھکانہ آگیا




