دوعالم نہ خوشیوں کے نغمات گاتے اگر کملی والے محمد نہ آتے
پرندے نہ پھر ڈال پر چہچہاتے اگر کملی والے محمد نہ آتے
صداقت نہ ہوتی عدالت نہ ہوتی سخاوت کی بھی کچھ حقیقت نہ ہوتی
شجاعت کی نعمت علی کیسے پاتے اگر کملی والے محمد نہ آتے
اگر نور شمع حرا ہی نہ ہوتا دیا آمنہ کا جلا ہی نہ ہوتا
تو پھر کون تھا جس سے ہم لو لگاتے اگر کملی والے محمد نہ آتے
تو پھر کہکشاں آسماں پر نہ ہوتی کوئی روشنی اس جہاں پر نہ ہوتی
فلک کے ستارے نہ پھر جھل ملاتے اگر کملی والے محمد نہ آتے
اس عالم پہ کوئی نہ فرمان آتا حدیث نہ ہوتی نہ قرآن آتا
ہدایت بھلا کیسے انسان پاتے اگر کملی والے محمد نہ آتے
اگر ان کا والشمس چہرہ نہ ہوتا تو پھر رات رہتی سویرا نہ ہوتا
اندھیرے اجالوں پہ قبضہ جماتے اگر کملی والے محمد نہ آتے
سر حشر کوئی ہمارا نہ ہوتا شفاعت کا ہم کو سہارا نہ ہوتا
گنہگار پھر آگ میں ڈالے جاتے اگر کملی والے محمد نہ آتے
شجر راج پھر ہوتا بوجہلیت کا کہ دم گھٹ رہا ہوتا انسانیت کا
عمر دیکھ کر کس کو ایمان لاتے اگر کملی والے محمد نہ آتے



