فرماتے ہیں علماء دین مفتیان شرع متین در مسئلہ ذیل غیر مسلم (ہندو ) کے گھر کھانا کیسا ہے اور انھیں کھلانا کیسا نیز اگر کھلانا جائز ہے تو انکے اور اپنے برتن الگ رکھے جائیں یا پھر ملا کر رکھ سکتے ہیں نیز ہندو ہوٹل (ڈھابہ )پر کھانا کیسا ہے بینوا تواجروا
سائل نزاکت خان مداری
بیرم نگر میرگنج بریلی
الجواب
اگر یہ یقین ہو کہ کھانا کھانے کے برتن پاک اور صاف ہیں، اور یہ نیت خیر ہو کہ میرے کھانا کھانے سے اسلام سے متاثر ہو جاۓ گا،نیز کھانا حلال و جائز ہو، حرام نہ ہو۔تو اس کے گھر یا ڈھابے پر کبھی کبھار کھانا کھانا کھا سکتا ہے،البتہ عادت نہ بناۓ،اسی طرح اچھی نیات کے ساتھ غیر مسلم کی ضیافت میں بھی کوئی حرج نہیں۔
کتاب السیر میں ہے
“قال لا بأس بأن يؤكل و يشرب فى آنية المشركين و لكن لتغسل بالماء قبل أن يؤكل فيها”
[كتاب السير للإمام محمد الشيباني،ج:١،ص:١٠٣،باب آنية المشركين و ذبايحهم و طعامهم،دار الكتب العلمية بيروت]
فتاویٰ عالمگیری میں ہے
“الأكل مع المجوس و مع غيره من أهل الشرك،أنه هل يحل أم لا و حكي عن الحاكم الإمام عبد الرحمن الكاتب أنه ابتلي به المسلم مرة أو مرتين فلا بأس به و أما الدوام عليه فيكره كذا فى المحيط…ولا بأس بضيافة الذمي و إن لم يكن بينهما إلا معرفة كذا فى الملتقط و فى التفاريق لا بأس بأن يضيف كافرا لقرابة أو لحاجة كذا التمرتاشي”
[الفتاوى الهندية،ج:٥،ص:٤٢٦،كتاب الكراهية/باب أهل الذمة و الأحكام التي تعود إليهم،دار الكتب العلمية بيروت]
اسی میں ہے
” دخل ذمي على مسلم فقام له،إن قام طمعا فى إسلامه،فلا بأس،و إن قام
تعظيما له من غير أن ينوي شيأ مما ذكرنا أو قام طمعا لغناه،كره ذلك،كذا فى الذخيرة”
[الفتاوى الهندية،ج:٥،ص:٤٢٨،كتاب الكراهية،باب أهل الذمة،دار الكتب العلمية بيروت]
ذخیرہ برہانیہ میں ہے
“و لا بأس بطعام المجوس كله إلا االذبيحة”
[الذخيرة البرهانية،ج:٧،ص:٣٤٠،كتاب الاستحسان/الفصل الخامس عشر فى أهل الذمة،دار الكتب العلمية بيروت]
كتبه
احقر اکبر خان مداری غفر لہ
سابق مدرس مدرسہ عربیہ مدار العلوم گووندہ پور بریلی
الجواب صحیح
خوشنود خان مداری عفی عنہ
صدر المدرسین مدرسۂ مذکورہ و ناظم اعلیٰ دار الافتا مداریہ
ماخوذ : فتاوی مداریہ ، جلد اول ، صفحہ ٦٨٤






