madaarimedia

گرویں میں ملے کھیت پر زراعت کرنا کیسا؟

کسی کو پیسوں کی ضرورت ہے۔ اُس نے کہا: میرا کھیت آپ رکھ لیجیے، جب میں پیسے واپس دوں گا تو کھیت واپس لے لوں گا۔ کیا میں اُس کھیت کو استعمال کر سکتا ہوں؟

سائل: عبد الطیف خان، اتر پردیش انڈیا 
Mob: +91 83580 37195

ٱلْجَوَابُ بِعَوْنِ ٱلْمَلِكِ ٱلْوَهَّابِ، ٱللَّهُمَّ هِدَايَةَ ٱلْحَقِّ وَٱلثَّوَابِ:
صورتِ مسئولہ میں اگر کسی شخص نے پیسوں کی ضرورت کے وقت اپنا کھیت اس شرط پر کسی کو دے دیا کہ “یہ کھیت تم رکھ لو، جب میں پیسے واپس دوں گا تو کھیت مجھے واپس دے دینا”، تو یہ معاملہ بیعِ وَفاء (بیع الوفاء) کہلاتا ہے۔ اور یہ جائز نہیں،کیونکہ یہ بیع درحقیقت قرض پر رہن (گروی) رکھنے جیسا ہے، اور اگر خریدار (یعنی جس کے پاس کھیت رکھا گیا ہے) اس کھیت سے نفع اُٹھاتا ہے، تو یہ قرض پر نفع حاصل کرنا ہوگا، جو کہ سود (رِبا) ہے، اور سود حرام ہے۔ لہٰذا: آپ اس کھیت کو استعمال نہیں کر سکتے، جب تک وہ کھیت صرف گروی کے طور پر رکھا گیا ہو اور اصل مالک کی اجازت نہ ہو، یا واضح طور پر کرایہ وغیرہ طے نہ ہوا ہو۔

در مختار میں ہے:
 كُلُّ قَرْضٍ جَرَّ نَفْعًا فَهُوَ رِبًا.(الدر المختار مع رد المحتار، ج ٦، ص ٤١٣، کتاب الرہن) یعنی: ہر وہ قرض جو نفع لائے، وہ سود ہے۔

مزید وضاحت:
اگر کھیت آپ کے پاس رہن (گروی) کے طور پر ہے، تو آپ اس سے تب ہی فائدہ اٹھا سکتے ہیں جب: مالک کی اجازت ہو، اور کوئی کرایہ یا معاہدہ طے ہو، ورنہ بغیر اجازت استعمال ناجائز ہے۔وَاللّٰهُ وَرَسُوْلُهُ أَعْلَمُ،

کتبہ
سید مشرف عقیل غفرلہ
قاضی و مفتی: ہاشمی دارالافتاء و القضاء، موہنی شریف، سیتامڑھی، بہار
٠١؍ ذوالحجه ١٤٤٦ھ مطابق ٢٩؍ مئی ٢٠٢٥ء، بروز جمعرات۔

Leave a Comment

Related Post

Top Categories