ہر مصیبت سے بچاتے ہیں مدینے والے
میری بگڑی کو بناتے ہیں مدینے والے
مجھ کو رعنائی دنیا سے بھلا کیا مطلب
میری آنکھوں میں سماتے ہیں مدینے والے
قبر میں بولا فرشتوں سے یہ عاصی ٹھہرو
میری امداد کو آتے ہیں مدینے والے
ہاتھ میں مقتل شبیر کی مٹی لے کر
ام سلمہ کو دکھاتے ہیں مدینے والے
جس کا ہوتا نہیں دنیا میں کوئی بھی اپنا
اس کو کاندھوں پہ بٹھاتے ہیں مدینے والے
مست میخانۂ آقا بڑا دانا نکلا
جام ہی ایسا پلاتے ہیں مدینے والے
حشر کی تپتی ہوئی دھوپ میں ہم پیاسوں کو
جام کوثر کا پلاتے ہیں مدینے والے
کاش آ کر کے کہے مجھ سے کبھی پروائی
چل شجر تجھ کو بلاتے ہیں مدینے والے



