جب سفینہ ہم بھنور میں لائے ہیں
موج طوفاں کو پسینے آئے ہیں
ہیں ہمارے پاؤں کے چھالے گواہ
ہم بیاباں سے بہاریں لائے ہیں
خون دل سے سرخ تھیں آنکھیں مگر
لوگ سمجھے میکدے سے آئے ہیں
غم کی دھوپیں ہیں مری تقدیر میں
ان کی قسمت میں خوشی کے سائے ہیں
میں نے اخلاص و وفا کے نام پر
یہ نہ پوچھو کتنے دھوکے کھائے ہیں
غم، تباہی، تلخیاں، رسوائیاں
ہاں یہی اپنوں سے تحفے پائے ہیں
گھر میرا نیلام ہوتے دیکھ کر
سب کو غم ہے خوش مرے ہمسائے ہیں
گردش دوراں سے رہبر پوچھئے
ہم ہجوم غم سے کب گھبرائے ہیں
Ghazal Rahbar Makanpuri “Jab Safina Hum Bhanwar Se Laaye Hain”

