شرعی وارث کون ہوگا؟

شرعی وارث کون ہوگا
مفتی صاحب قبلہ!  السلام علیکم ورحمۃ اللہ تعالی و برکاتہ
میں، محمد اکبر علی ابن علی رضا، یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ:ہمارے خاندان میں تین بھائی تھے
(۱) دُھلو لال محمد،(۲) محبوب لال محمد،(۳) رجب لال محمد
اِن میں سے محبوب لال محمد سن 1943 سے لاپتہ ہیں۔نہ ان کی شادی ہوئی تھی، نہ کوئی اولاد ہے۔والدین بھی وفات پا چکے ہیں، اور ان کے علاوہ کوئی دوسرا وارث بھی موجود نہیں۔صرف ان کے دو سگے بھائیوں کی اولاد اور اولاد کی اولاد موجود ہیں۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ’’ محبوب لال محمد‘‘ کے حصے کی زمین پر، ایک بھائی کی اولاد یہ دعویٰ کر رہی ہے:یہ زمین ہماری ہوگی ہم لیں گے‘‘ اور وہ زبردستی اس پر قابض بھی ہے۔لہٰذا شریعت کی روشنی میں یہ بتائیں کہ:محبوب لال محمد کی غیر موجودگی میں ان کی جائیداد (زمین) کا شرعی وارث کون ہوگا؟
المستفتی: اکبر علی ابن علی رضا،شاہ پور ،فتح پور، یوپی (انڈیا)موبائل:8128371386
 
 
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
برصدقِ سوال صورتِ مسئولہ میں: محبوب لال محمد مفقود (یعنی لاپتہ شخص) ہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ جو شخص طویل مدت سے لاپتہ ہو اور اُس کی موت یا زندگی کی کوئی خبر نہ ہو، ایسے شخص کو مفقود کہا جاتا ہے۔ ایسا شخص شرعاً زندہ ہی سمجھا جاتا ہے جب تک یقینی طور پر اُس کی موت ثابت نہ ہو۔ لیکن بہت طویل عرصہ گزر جانے کے بعد قاضی (یا شرعی فیصلہ کرنے والا مفتی) غالبِ گمان کی بنیاد پر اس کی وفات کا فیصلہ دے سکتا ہے۔ جیسا کہ فقہاء نے ارشاد فرمایا ہے کہ مفقود کی وراثت کا فیصلہ قاضی کے حکم سے ہوتا ہے۔(ہدایہ، ردّ المحتار، کتابِ المفقود)صورتِ مسئلہ میں محبوب لال محمد سن 1943 سے آج تک لاپتہ ہیں، یعنی تقریباً 82 سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اِتنی طویل مدت کے بعد فقہائے احناف کے مطابق یہ مدت موت کے غالبِ گمان کے لیے کافی سمجھی جاتی ہے۔لہٰذا شرعی طور پر اب انہیں وفات شدہ مان کر وراثت تقسیم کی جائے گی۔اب سوال یہ ہوتا ہے کہ محبوب لال محمد کے وارث کون ہوں گے؟جواب یہ ہوگا کہ چونکہ:نہ ان کی بیوی ہے،نہ ان کی اولاد ہے،نہ ان کے والدین زندہ ہیں،اور نہ ہی کوئی اور قریبی وارث ہے،لہٰذا شرعی وراثت کے اصول کے مطابق اُن کے سگے بھائی ہی وارث بنتے ہیں۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں فرماتا ہے:وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلٰلَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ فَإِنْ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْ ذَٰلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ۔ [سورۃُ النِّسَاء:آیت:۱۲] لہٰذا محبوب لال محمد کی جائیداد اُن دونوں سگے بھائیوں میں برابر تقسیم ہوگی:دُ ھلو لال محمد( نصف حصہ)۔ رجب لال محمد(نصف حصہ )اب اگر دونوں بھائی بھی وفات پا چکے ہیں تو اِن دونوں بھائیوں کے حصے اِن کی اپنی اپنی اولاد میں تقسیم ہوں گے۔یعنی:دھلو لال محمد کی اولاد اس کے حصے کی وارث ہوگی۔رجب لال محمد کی اولاد اس کے حصے کی وارث ہوگی۔یاد رہے کہ کسی ایک بھائی کی اولاد پورے مال کی وارث نہیں بن سکتی بشرطیکہ دوسرے بھائی کی اولاد زندہ یا اُس کے وارث موجود ہوں۔اور جو اولاد زبردستی زمین پر قبضہ کیے ہوئے ہے، وہ شرعاً غاصب (ظالم) ہے اور سخت گنہگار و مستحقِ عذابِ نار ہوگا۔ جیسا کہ نبیِّ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: مَنِ اقْتَطَعَ شِبْرًا مِنَ الْأَرْضِ ظُلْمًا طَوَّقَهُ اللهُ إِيَّاهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ سَبْعِ أَرَضِينَ۔یعنی: جس نے ایک بالشت زمین بھی ظلم سے لے لی، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے سات زمینوں کا طوق بنا کر اس کی گردن میں ڈالے گا۔[بخاری،حدیث نمبر 2452 /مسلم شریف، حدیث نمبر 4132/1610] لہٰذا: صرف ایک بھائی کی اولاد کا پورے مال پر قبضہ کرنا شرعاً ناجائز، ظلم اور حرام ہے۔ وراثت دونوں بھائیوں کی نسل میں برابر تقسیم کی جائے گی۔حاصلِ کلام یہ ہے کہ : محبوب لال محمد شرعاً مفقود سمجھے جائیں گے، اور ۸۲سال سے زائد گزر جانے کے بعد انہیں وفات شدہ مانا جائے گا۔ اُن کا مال ان کے دونوں سگے بھائیوں میں برابر تقسیم کیا جائے۔اور ان بھائیوں کی تَوَفِّیات(یعنی موت) کے بعد اُن کے حصے اُن کی اپنی اولاد میں جائیں گے۔ کسی ایک بھائی کی اولاد پورے مال کی وارث نہیں ٹھہرتی۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَمﷺ
کتـــــــــــــــــــــــ سید مشرف عقیل غفرلہ ــــــــــــــــہ

۰۳/جمال الآخر ۱۴۴۷   ؁ھ مطابق۲۵ / نومبر۲۰۲۵   ؁ عیسوی  بروزِ منگل
ہاشمی دارالافتاوالقضا پٹیل نگر،سورت گجرات (انڈیا)

Tagged:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *