جن کے شہ مدار ہو گئے
ان کے بیڑے پار ہو گئے
جان من کو زندگی ملی
آپ غم گسار ہو گئے
المدد مدار جب کہا
ہم بھنور سے پار ہو گئے
آپ کی نگاہ جب اٹھی
منگتے تاجدار ہو گئے
آپ جس طرف گزر گئے
صحرا لالہ زار ہو گئے
تیرے نقش پا کو دیکھکر
تارے شرم سار ہو گئے
ان کو مل گیئں بلندیاں
تم پہ جو نثار ہو گئے
آپ کے کرم کے یا مدار
ہم بھی طلب گار ہو گئے
اپنی بھی ہے قدر بڑھ گئی
تم جو خریدار ہو گئے
آج سے اے شرافت حزیں
ہم وفا شعار ہو گئے
از قلم مولاناشرافت علی شاہ
مرغوبی معصومی مداری



