کہتی ہے یہ پھولوں کی مہکار حسینی بن جاؤ
کھل اٹھے گا ایماں کا گلزار حسینی بن جاؤ
ظلم کریں جب دنیا والے صبر کا رکھو یاد سبق
اپنا لو شبیر کا تم کردار حسینی بن جاؤ
آؤ تم شبیر کے دامن میں گر خلد کی ہے خواہش
جنت کے شبیر ہی ہیں سردار حسینی بن جاؤ
کیوں ہو پریشان کیوں ہو حراساں کیوں ہو غم میں ڈوبے ہوئے
قدموں میں آجائے گا سنسار حسینی بن جاؤ
دین کی خاطر گھر کو لٹا کر اشک بہے شبیر کے جو
کہتی ہے ان اشکوں کی بوچھار حسینی بن جاؤ
خارجیت کے جال سے نکلو حر کی سنت اپناؤ
سن کے شجر کے حسنینی اشعار حسینی بن جاؤ