madaarimedia

khuwaja syed abu turab fansoor r.a | حضرت خواجہ سید ابو تراب فنصور رحمۃ اللہ علیہ


حضرت سید ابو تراب فنصور رحمۃ اللہ علیہ جامع علوم صوری و معنوی تھے بوجہ وفور علم کے آپ کو لوگ ملک العرفا کہتے تھے آپ سادات حسینی و حسنی سے ممتاز ہیں جن کی مقدس نسبت والد ماجد کی طرف سے حضرت سیدنا امام عالی مقام حسین علیہ السلام شہید کربلا اور والدہ محترمہ کی جانب سے حضرت سیدنا امام عالی مقام حسن علیہ السلام سے ملتا ہے

آپ کا شجرہ نسب کچھ اس طرح ہے

حضرت خواجہ سید ابو تراب فنصور رضی اللہ عنہ ابن خواجہ سید عبداللہ رضی اللہ عنہ ابن خواجہ سید کبیر الدین رضی اللہ عنہ ابن خواجہ سید وجیہ الدین رضی اللہ عنہ ابن خواجہ سید محمد داؤود رضی اللہ عنہ ابن خواجہ سید محمد ابراہیم رضی اللہ عنہ ابن خواجہ سید محمد اسماعیل رضی اللہ عنہ ابن خواجہ سید محمد اسحاق رضی اللہ عنہ ابن خواجہ سید نظام الدین رضی اللہ عنہ ابن خواجہ سید ابو سعید رضی اللہ عنہ ابن خواجہ سید محمد جعفر رضی اللہ عنہ ابن حضرت خواجہ سید محمود الدین رضی اللہ عنہ خواجہ محمود حضرت سیدنا مدار العالمین قطب المدار رضی اللہ عنہ کے حقیقی برادر تھے



حضرت خواجہ فنصور تین بھائی تھے

حضرت خواجہ سید ابو محمد ارغون رضی اللہ عنہ

حضرت خواجہ سید ابو الحسن طیفور رضی اللہ عنہ

اور آپ حضرت سید ابو تراب فنصور رضی اللہ عنہ

یہ تینوں بھائی چندے آفتاب و چندے مہتاب تھے اور تینوں بھائی حضرت سید عبداللہ کے صاحبزادے تھے حضرت ابو ترا فنصور رحمۃ اللہ علیہ سے بکثرت خوارق و عادات سرزد ہوئے ہیں اور کیوں نہ ہوتے بڑی شخصیت یعنی حضرت قطب المدار رضی اللہ تعالی عنہ سے فیض یاب تھے اور ہمہ وقت سرکار قطب المدار رضی اللہ عنہ کے ہمراہ رہتے تھے


• واقعہ •

ایک دفعہ تاجروں کا قافلہ جا رہا تھا جب وہ لوگ مقیم ہوئے تو کسی نے کھانے میں زہر ملا دیا ان میں سے ایک شخص باہر ہو گیا تھا اس نے آکر جو دیکھا کہ سارے لوگ نیم جاں پڑے ہوئے ہیںیہ دکھ اس نے آہو واویلا کرنا شروع کردیا حضرت ابو تراب فنصور کا اس طرف گزر ہوا آپ نے اس شخص سے دریافت کیا اس نے آپ سے عرض کیا آپ لوگوں کے لیے دعا فرمائیں خواجہ فنصور کو ان پر رحم آیا اور جناب باری میں نہایت عاجزی سے دعا کی خدا کی شان! ان سب پر سے زہر کا اثر جاتا رہا اس کے بعد وہ سب لوگ واویلا مچانے لگے کہ ہمارا مال ہمارا مال جاتا رہا آپ نے فرمایا گھبراؤ مت اپنے اپنے اسباب میں دیکھو جب دیکھا گیا تو سب مال دستیاب تھا اور وہ لوگ خوشی خوشی اپنے اپنے شہروں میں چلے گئے



• واقعہ •

ایک مرتبہ حضرت خواجہ ابوتراب فنصور رحمۃ اللہ علیہ اپنے تخت پر جلوہ افروز تھے خادم آپ کا حسب دستور فقیروں اور مسکینوں کو کمبل تقسیم کر رہا تھا جب اس نے فقرہ کا کثیر ہجوم دیکھا اور کمبل کم تھے تو حضور کی خدمت اقدس میں عرض کیا حضرت نے وہ ردائے مبارک جو خود اوڑھے ہوئے تھے وہ بھی دے دی اور ارشاد فرمایا کہ بسم اللہ کہہ کر تقسیم کرنا شروع کرو خدا کے فضل و کرم سے وہ کمبل سب کو کفایت کر گئے اور کوئی شخص بھی محروم نہ رہا


اسی گروہ میں ایک امیر زادہ بھی تھا جو پریشان حال تھا خادم نے جس وقت اس کو کمبل دیا بےخود ہو کر شور کرتا رہا اور بے ہوش ہو گیا اور جب حقیقت حضرت پر منکشف ہوئی تو حضرت نے اس کو زمرۂ مریدان و طالبان صادق میں داخل فرما کر تعلیم مراقبات و مجاہدات و اشغال اذکار سے بہرہ ور فرمایا اور حاضرین جلسہ سے ارشاد فرمایا کہ نصیر الدین مشہور شاہ درویش امرائے ایران سے ہیں مگر انہوں نے اپنی کیفیت کو یہاں تک پوشیدہ رکھا کہ آج تک کسی کو ظاہر نہ ہوا اور آج اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ظاہری حکومت سے دستبردار ہو کر باطنی خدمت پر مامور ہوئے


• سادگی و انکساری •

بادشاہ جونپور ابراہیم شرقی نے حضرت قطب المدار کی خدمت میں عرض کیا کہ اگر حکم ہو تو ان صاحبزادوں کو پیش کروں حضرت نے ان صاحبزادوں کو بلا کر مشورہ کیا حضرت خواجہ سید ابوتراب فنصور نے عرض کیا کہ ہم لوگوں نے نعمت لازوال کی کوشش کی ہے اور اسی کوشش میں رہتے ہیں ہم یہ دولت جو زائل ہونے والی ہے لے کر کیا کریں گے حضرت قطب المدار رضی اللہ عنہ نے یہ جواب سن کر مرحبا فرمایا اور بہت خوش ہوئے اور ان کے حق میں دعا فرمائی حضرت خواجہ ابوتراب فنصور رحمۃ اللہ علیہ ہر وقت عالم محویت و استغراق میں رہتے تھے مساکین کی بہت خدمت کرتے تھے


•پہلا نکاح •

حضرت خواجہ سید ابو تراب فنصور کا پہلا نکاح قصبہ دیوہا میں ایک بی بی زاہدہ عابدہ مہر النساء بنت ملک سید برہان بنت سید سالار کے ہمراہ ہوا


• دوسرا نکاح •

نکاح ثانی آپ کے وطن شریف قصبہ چنار جو کہ مضافات حلب میں ہے آپ کے والد محترم اور حضرت سید بدیع الدین قطب المدار قدس سرہ نے اپنے خاندان ذوالحترام سے ایک دختر زاہدہ و عابدہ بیوی سکینہ کے ہمراہ کیا جن سے نسل شروع ہوئی


• وقت آخر شہزادوں کی تخت نشینی •

جب آپ کا وقت وصال قریب پہنچا تو ایک روز اپنے جد مکرم حضرت سید بدیع الدین قطب المدار کے روضہ انور پر حاضر ہو کر مراقب ہو گئے ارشاد ہوا کہ اے نور الابصار کیا فکر ہے نسبت اویسی جو مجھ سے تم کو خاص عطا ہوئی ہے اس طریق جلیل القدر کا تاج اپنے لخت جگر سید محمد ابراہیم کے سر پر رکھ کر طریق کے مذکور صدر کے سجادہ نشین سے ممتاز کرو اور جمیع طرائق جو کہ تم کو عطا ہوئے ہیں ان کی دستار و سجادگی سے اپنے نور نظر سید محمد دریا سعید کے سر کو مزین کرو اپنا قائم مقام بنایا اور بقیہ صاحبزادوں یعنی سید ابو المبارک و سید محمد یعقوب وسید محمد سعید وسید محمد اسحاق وسید محمد محمود کو تمغۂ خلافت عطا کر کے جمیع صوبہ و شہر وقصبات و دیہات میں بغرض اشاعت اسلام و تعلیم عرفان کہ روانگی کا حکم دیا

چنانچہ جیسا کہ آپ نے حضور آقائے نامدار حضرت قطب المدار رضی اللہ عنہ کا حکم پایا اسی کے مطابق تاریخ 28 شعبان المعظم جمیعت خانہ میں تمام اپنے خلفاء و مریدیین و عزیز و اقارب کو جمع فرماکر ارشاد فرمایا کہ میں نے اپنا قائم مقام حضرت سید محمد ابراہیم حضرت سید محمد دریا سعید کو فرمایا


• وفات •

۳ رمضان ۸۹۴ ھجری میں آپ کا وصال ہوا مزار سرزمین مکن پور شریف میں مرجع خلائق ہے ضلع کانپور یو پی انڈیا




No tags found for this post.

Leave a Comment

Related Post

Top Categories