ہلچل ہے بہت دل میں ماتھے پہ پسینہ ہے کچھ دور مدینہ ہے کچھ دور مدینہ ہے
آنکھوں کے سمندر میں اشکوں کا خزینہ ہے کچھ دور مدینہ ہے کچھ دور مدینہ ہے
تھے دل میں بڑے ارماں سرکار کا درد دیکھیں پھر آے بلاوا اور ہم طیبہ نگر دیکھیں
رستہ ہے مدینے کا رمضاں کا مہینہ ہے کچھ دور مدینہ ہے کچھ دور مدینہ ہے
عابد کا بھی مدفن ہے زہرا کی بھی مرقد ہے جس در پہ دعا ہرگز ہوتی ہی نہیں رد ہے
جوخلد کو جاتا ہے وہ ایسا سفینہ ہے کچھ دور مدینہ ہے کچھ دور مدینہ ہے
آنکھوں سے تلاوت کی قرآن سے چہرے کی اصحاب نے جو مے پی تاعمر نہیں اتری
وہ جام مجھے بھی اب ان آنکھوں سے پینا ہے کچھ دور مدینہ ہے کچھ دور مدینہ ہے
موتی ہیں صداقت کے ہیرے ہیں عدالت کے ہیں لال سخاوت کے گنجین شجاعت کے
یہ ایسا سمندر ہے یہ ایسا سفینہ ہے کچھ دور مدینہ ہے کچھ دور مدینہ ہے
مٹی ہے جو اس در کی وہ عرش کی زینت ہے وہ ارض مدینہ تو جنت کی بھی جنت ہے
انگوٹھی پہ دھرتی کی خوش رنگ نگینہ ہے کچھ دور مدینہ ہے کچھ دور مدینہ ہے
بے راہ روی میری اور راستے طیبہ کے کس منہ سے شجر جاؤں میں سامنے آقا کے
احساس ندامت سے پھٹتا میرا سینہ ہے کچھ دور مدینہ ہے کچھ دور مدینہ ہے


