madaarimedia

In vitro fertilization (IVF) جائز یا حرام

سوال

بسم الله الرحمن الرحیم
السّلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ

کیا آئی وی ایف ( ان وٹرو فرٹیلائزیشن) شریعت میں جائز ہے، بشر طیکہ نکاحکے تحت مرد اور عورت میاں بیوی ہوں۔ فتوی عنایت فرماے نوازش ہوگی۔ فقط والسلام
مولانا سید نورالعرافات بدیعی مداری

مسئلہ: آئی وی ایف (In Vitro Fertilization) کا شرعی حکم

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ وکفیٰ وسلام علیٰ عبادہ الذین اصطفیٰ، اما بعد!
IVF یعنی مصنوعی طریق تولید کا مسئلہ جدید طبی ترقیات میں شامل ہے، جس کا شرعی حکم فقہاء کرام نے اصولِ شریعت کی روشنی میں واضح کیا ہے۔ اس مسئلے میں جواز و عدمِ جواز دونوں پہلو موجود ہیں، جن پر تفصیل سے گفتگو ضروری ہے۔

جواز کے دلائل
1. بقاءِ نسل ایک فطری اور شرعی تقاضا
شریعتِ مطہرہ نے نکاح کو ذریعہ بنا کر نسلِ انسانی کی بقا کا اصول عطا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : “وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَجَعَلَ لَكُم مِّنْ أَزْوَاجِكُم بَنِينَ وَحَفَدَةً” (النحل: 72) ترجمہ: “اور اللہ نے تمہارے لیے تمہاری جنس میں سے تمہاری بیویاں بنائیں اور تمہاری بیویوں سے تمہیں بیٹے اور پوتے دیے۔”
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اولاد کا حصول شریعت کی نظر میں مستحسن اور ایک فطری خواہش ہے، اور جب فطری اسباب کارگر نہ ہوں تو شرعی حدود میں رہتے ہوئے دیگر تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں۔

2. علاج کی شریعت میں اجازت
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : “تَدَاوَوْا عِبَادَ اللَّهِ، فَإِنَّ اللَّهَ لَمْ يَضَعْ دَاءً إِلَّا وَضَعَ لَهُ شِفَاءً” (سنن ابی داؤد: 3855) ترجمہ: “اے اللہ کے بندو! علاج کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کوئی بیماری ایسی نہیں بنائی جس کا علاج نہ رکھا ہو۔”

اگر قدرتی طریقے سے اولاد حاصل نہ ہو سکے تو IVF ایک طبی علاج کے طور پر اختیار کیا جا سکتا ہے، بشرطیکہ شرعی قیود کا لحاظ رکھا جائے۔

3. اصولِ ضرورت کا اطلاق
اسلامی اصول یہ ہے کہ اگر کسی جائز مقصد کے حصول کے لیے کوئی مباح طریقہ موجود نہ ہو تو بقدرِ ضرورت خلافِ عادت طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ فقہاء نے لکھا ہے : “الضروریات تبيح المحظورات” (القواعد الفقہیہ) یعنی “ضرورتیں بعض ممنوعات کو جائز کر دیتی ہیں۔”
اگر کسی جوڑے کو فطری طریقے سے اولاد نہ ہو رہی ہو، اور IVF ان کے لیے آخری امید ہو، تو یہ اصولِ ضرورت کے تحت جائز ہو سکتا ہے۔

4. حرمتِ اختلاطِ نسب کی عدم موجودگی
IVF کی ایک جائز صورت وہ ہے جس میں شوہر کا نطفہ اور بیوی کا بیضہ لے کر، حمل اسی بیوی کے رحم میں رکھا جائے، اور کسی اجنبی کا کوئی دخل نہ ہو۔ اس صورت میں نسب کی حفاظت ہو گی، جبکہ فقہ اسلامی میں نسب کی حفاظت بنیادی اصول ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : “ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّهِ” (الاحزاب: 5) ترجمہ: “انہیں ان کے باپوں کے نام سے پکارو، یہی اللہ کے نزدیک زیادہ انصاف ہے۔” IVF کے جائز ہونے کی شرط یہ ہے کہ اس میں نسب کی حفاظت یقینی ہو اور کسی اجنبی کا نطفہ یا بیضہ شامل نہ ہو۔

عدمِ جواز کے دلائل

1. غیر فطری طریقہ تولید
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے انسانی تخلیق کے فطری طریقے کو بیان کیا ہے : “وَأَنَّهُ خَلَقَ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنثَىٰ، مِن نُّطْفَةٍ إِذَا تُمْنَىٰ” (النجم: 45-46) ترجمہ: “اور بے شک اسی نے نر و مادہ کو پیدا کیا، نطفے سے جب کہ وہ ٹپکایا جاتا ہے۔”

IVF کے عمل میں یہ قدرتی طریقہ ترک کر کے مصنوعی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے، جو بعض فقہاء کے نزدیک غیر فطری اور غیر مستحسن ہے۔

2. اختلاطِ نسب کا خدشہ
IVF کے دوران غلطی، دھوکہ یا لاپرواہی کی وجہ سے نسب میں اختلاط ہو سکتا ہے۔ اسلامی شریعت میں نسب کی حفاظت بنیادی اصول ہے، اور اس میں کسی بھی طرح کی بے احتیاطی جائز نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : “مَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ وَهُوَ يَعْلَمُ فَالْجَنَّةُ عَلَيْهِ حَرَامٌ” (بخاری) ترجمہ: “جو شخص اپنے حقیقی باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف نسبت کرے، حالانکہ وہ جانتا ہو (کہ یہ غلط ہے)، اس پر جنت حرام ہے۔”

IVF میں نسب کی حفاظت یقینی بنانا بہت مشکل ہوتا ہے، کیونکہ اسپرم یا بیضے کی تبدیلی کا امکان موجود رہتا ہے۔

3. پردے کے شرعی تقاضے
IVF کے عمل میں عورت کے مخصوص اعضاء کا معائنہ ضروری ہوتا ہے، جس کے لیے غیر محرم ڈاکٹروں کی موجودگی کا خدشہ ہوتا ہے۔ اسلامی شریعت میں پردہ اور حیاء کے اصولوں کی سختی سے پاسداری لازم ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : “الحياءُ لا يأتي إلَّا بخيرٍ” (بخاری: 5655)
ترجمہ: “حیاء ہمیشہ خیر ہی لاتی ہے۔” IVF کے عمل میں غیر محرم ڈاکٹروں کی مداخلت سے حیاء اور پردے کے اصول متاثر ہو سکتے ہیں، جو کہ شرعاً ناپسندیدہ ہے۔

متوازن شرعی حکم
مندرجہ بالا دلائل کی روشنی میں، اگر درج ذیل شرائط پوری ہوں، تو IVF بعض فقہاء کے نزدیک جائز ہو سکتا ہے:
1. شوہر کا نطفہ، اس کی بیوی کا بیضہ اور حمل اس کی بیوی ہی کے رحم میں رکھا جائے۔
2. کسی غیر مرد یا غیر عورت کا نطفہ یا بیضہ شامل نہ ہو۔
3. اختلاطِ نسب کا کوئی امکان نہ ہو، اور مکمل احتیاط برتی جائے۔
4. شرعی پردے کے تقاضے ملحوظ رکھے جائیں، اور غیر محرم ڈاکٹروں سے اجتناب کیا جائے۔
5. یہ طریقہ آخری حل ہو، جب قدرتی طریقے سے اولاد کا کوئی امکان نہ ہو۔
اگر ان شرائط میں سے کسی ایک کی بھی خلاف ورزی ہو تو IVF شرعاً ناجائز ہو گا۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔

کتبہ
ابو الحماد محمد اسرافیل حیدری المداری دار الافتاء جامعہ عربیہ مدار العلوم مدینۃ الاولیاء مکنپور شریف

https://madaarimedia.com/%d8%a8%d8%b5%db%8c%d8%b1%db%83-%d8%a7%d9%84%d8%a7%db%8c%d9%85%d8%a7%d9%86-%d8%aa%d9%81%d8%b3%db%8c%d8%b1-%d9%82%d8%af%db%8c%d8%b1%db%8c-%d8%a8%d8%af%db%8c%d8%b9%db%8c

Leave a Comment

Related Post

Top Categories