قبر پر اذان دینا
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلے کے بارے میں کیا قبر پر تدفین کے بعد اذان پڑھنا درست ہے
حافظ محمد مجاہد مداری پیلی بھیت شریف
ٱلْجَوَابُ بِعَوْنِ ٱلْمَلِكِ ٱلْوَهَّابِ، ٱللَّهُمَّ هِدَايَةَ ٱلْحَقِّ وَٱلثَّوَابِ
دفن کے بعد قبر پر اذان دینا جائز بلکہ مستحب عمل ہے۔
اس کا مقصد یہ ہے کہ میت کو سوالِ قبر کے وقت اطمینان حاصل ہو، اور شیطانی وسوسے دور ہوں۔ چونکہ اذان کے الفاظ میں توحید، رسالت اور اسلام کی گواہی ہوتی ہے، اس لیے اس کے پڑھنے سے میت کے دل کو تقویت ملتی ہے۔
علامہ شامی فرماتے ہیں کہ علامہ خیرالدین رمل نے البحر الرائق کے حاشیہ میں لکھا ہے
کہ بعض کتب شافعیہ میں مرقوم ہے کہ نو مولود، غم زدہ، مرگی میں مبتلا، غصہ سے مدہوش، اور بدخلق شخص کے کان میں اذان دینا، جہاد میں جنگ کے وقت، اور آگ لگنے کے وقت، اذان دینا سنت ہے۔ اسی طرح میت کو قبر میں اتارتے وقت بھی اذان دینے کو مسنون لکھا ہے، تاکہ میت کی انتہا ابتداء کے اور موت پیدائش کے موافق ہو جائے، یعنی جس طرح دنیا میں آتے وقت اذان سنی تھی اسی طرح دنیا سے جاتے وقت بھی اذان سن کر جائے۔ )شرح صحیح مسلم، جلد 1، ص: 1071(
قبر میں نکیرین کے سوال کے وقت شیطان میت کو بہکانے کے لیے اس کی قبر میں پہنچ جاتا ہے اور جب وہ پوچھتے ہیں:
“مَنْ رَبُّکَ؟”
تو شیطان اپنی طرف اشارہ کر کے کہتا ہے: “میں رب ہوں”۔ )حاشیہ: نوادر الاصول، ج: 3، ص: 227(
حدیثوں میں یہ بھی آیا ہے کہ جب اذان دی جاتی ہے تو شیطان پیٹھ پھیر کر گوز خارج کرتا ہوا بھاگتا ہے، جیسا کہ مسلم شریف میں ہے:
حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: إِنَّ الشَّيْطَانَ إِذَا سَمِعَ النِّدَاءَ بِالصَّلَاةِ ذَهَبَ حَتَّى يَكُونَ مَكَانَ الرَّوْحَاءِ قَالَ سُلَيْمَانُ: فَسَأَلْتُهُ عَنِ الرَّوْحَاءِ فَقَالَ: هِيَ مِنَ الْمَدِينَةِ سِتَّةٌ وَثَلَاثُونَ مِيلًا
ترجمہ: جریر نے اعمش سے، انہوں نے ابوسفیان (طلحہ بن نافع) سے اور انہوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: بلاشبہ شیطان جب نماز کی پکار (یعنی اذان) سنتا ہے تو بھاگ کر چلا جاتا ہے یہاں تک کہ روحاء کے مقام پر پہنچ جاتا ہے۔
سلیمان (اعمش) نے کہا: میں نے ان (اپنے استاد ابوسفیان طلحہ بن نافع) سے روحاء کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: یہ مدینہ سے چھتیس میل کے فاصلے پر ہے۔ )صحیح مسلم، ج: 1، ص: 167، رقم الحدیث: 388(
اسی لیے شیطان کو بھگانے کے لیے ایک عظیم کیمیا بتایا گیا ہے کہ بعد از دفن اذان پڑھو، شیطان بھاگ جائے گا۔
اور یہ کہنا کہ یہ سب سنت سے ثابت نہیں ہے، تو ایسی بہت سی چیزیں جو سنت نہیں، اس کے باوجود بھی مستحب اور ثواب کا کام ہے۔ جس طرح وضو کے آغاز میں “بسم اللہ” پڑھنا سنت نہیں مگر مستحب ہے، اسی طرح قبر پر اذان دینا بھی مستحب اور جائز عمل ہے۔
صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں
دفن کے بعد قبر پر اذان دینا مستحب و جائز ہے، یہ سنتِ سلف صالحین ہے۔ (بہارِ شریعت، جلد 1، حصہ 3، صفحہ 466
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ قبر پر دفن کے بعد اذان دینا جائز ، مستحب، باعثِ برکت، اور میت کے لیے نفع بخش ہے۔
لہٰذا جو لوگ دفن کے بعد قبر پر اذان دیتے ہیں، وہ شرعاً درست اور باعثِ اجر عمل کرتے ہیں۔
اس مسئلے کی دلائل سے مزین مکمل وضاحت جاننے کے لیے میری کتاب “مسائلِ تجہیز و تدفین” صفحہ 100 کا مطالعہ فرمائیں۔
وَٱللّٰهُ تَعَالىٰ أَعْلَمُ بِٱلصَّوَابِ۔
کَتَبَهُ: سید مشرف عقیل
قاضی و مفتی: ہاشمی دارالافتاء و القضاء، موہنی شریف، سیتامڑھی، بہار (ہند(
12؍ صفر المظفر 1447ھ، مطابق 08؍ اگست 2025ء، بروز جمعرات







One Comment
مشایخ مداریہ کا معمول و مقال اس فتوے کے خلاف ہے۔