ماہ کامل پر ہو جیسے کوئی اختر رکھ دیا
اس حسیں چہرے پہ لب ہیں یا گل تر رکھ دیا
جیتی بازی ہار بیٹھا ہوں یہ کیا ہے ماجرا
ہے بساط زیست کو کس نے الٹ کر رکھ دیا
کلمۂ حق پھر بھی تو جاری تھا جب اغیار نے
ریت پر جلتی لٹا سینے پر پتھر رکھ دیا
اُس کی حالت کو خدا نے بھی نہیں بدلا کبھی
جس نے خود حالات کے قدموں میں سر رکھ دیا
کہہ دیا ہر قول پر لبیک ، کیا تقلید ہے یا
پاؤں اپنا اُن کے ہی نقش قدم پر رکھ دیا
جانے منصف کیا لکھے دیکھو تو قاتل کا ہنر
قتل کرے آستیں میں میری خنجر رکھ دیا
ایک مدت سے وہ نم ہے خشک ہوتا ہی نہیں
میں نے جس کاغذ پہ اپنا دیدۂ تر رکھ دیا
ہاں مرے اشعار سن کر کوئی سامع بول اٹھا
آپ نے رہبر تو کوزے میں سمندر رکھ دیا
Ghazal Rahbar Makanpuri “Maahe kamil par ho jaise koi akhtar rakhdiya”

