madaarimedia

کیا جمعہ کی فرضیت و فضائل قرآن و احادیث و فقہائے کرام سے ثابت ہیں

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسائلِ ذیلیہ میں-
1, جمعہ کی فرضیت و فضائل قرآن و احادیث و فقہائے کرام سے ثابت کریں- 2, قصبات و دیہات میں جمعہ کا کیا حکم ہے ۔؟ 3, ظہر احتیاطی باجماعت،اسی مسجد میں اسی مصلیٰ پر اسی امام جمعہ کے پیچھے پڑھنے کا شریعت میں کیا حکم ہے آیا یہ ناجائز و ممنوع ہے یا باجماعت پڑھنے کا کوئی حکم ہے مدلل و مفصل جواب عنایت فرمائیں اور عند اللّٰہ ماجور ہوں ۔ سائل غلام مرسلین مداری ، رسول آباد کانپور دیہات۔

جمعۃ المبارکہ کی فضیلت قرآن، احادیث اور آثار صحابہ کی روشنی میں۔

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم الجواب بعون الملک الوھاب۔

قرآن مجید میں فضیلتِ جمعہ#
قرآن مجید میں ایک مکمل سورۃ ہی” الجمعہ” اللہ تعالیٰ نے جمعہ کے دن کو خصوصی اہمیت دی ہے اور اس کے لیے سورۃ الجمعہ میں ارشاد فرمایا:

جمعہ کی نماز کی فرضیت_
“يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ” (سورۃ الجمعہ: 9) ترجمہ: اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو، یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔ یہ آیت مبارکہ جمعہ کی فرضیت اور اس کے وقت دنیاوی مشاغل ترک کرنے کی تاکید پر دلالت کرتی ہے۔

احادیث مبارکہ میں فضیلتِ جمعہ#
جمعہ تمام دنوں کا سردار ہے_
“عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: خَيْرُ يَوْمٍ طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ يَوْمُ الْجُمُعَةِ، فِيهِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِيهِ أُدْخِلَ الْجَنَّةَ، وَفِيهِ أُخْرِجَ مِنْهَا، وَلَا تَقُومُ السَّاعَةُ إِلَّا فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ”. (صحیح مسلم، حدیث: 854) ترجمہ: سب سے بہتر دن جس میں سورج طلوع ہوتا ہے، وہ جمعہ کا دن ہے، اسی دن حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا گیا، اسی دن انہیں جنت میں داخل کیا گیا، اسی دن انہیں جنت سے نکالا گیا، اور قیامت بھی جمعہ کے دن ہی قائم ہوگی۔

جمعہ کے دن درود شریف کی کثرت_
” عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَيَّامِكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فِيهِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِيهِ قُبِضَ، وَفِيهِ النَّفْخَةُ، وَفِيهِ الصَّعْقَةُ، فَأَكْثِرُوا عَلَيَّ مِنَ الصَّلَاةِ فِيهِ، فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ مَعْرُوضَةٌ عَلَيَّ”. (سنن أبي داود، حدیث: 1047) ترجمہ: تمہارے دنوں میں سب سے افضل دن جمعہ کا دن ہے، اسی دن حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا گیا، اسی دن ان کا انتقال ہوا، اسی دن صور پھونکا جائے گا اور اسی دن بے ہوشی طاری ہوگی، پس تم مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو، کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔

جمعہ گناہوں کی معافی کا ذریعہ_
“عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ ﷺ قَالَ: الصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ، وَالْجُمُعَةُ إِلَى الْجُمُعَةِ، وَرَمَضَانُ إِلَى رَمَضَانَ، مُكَفِّرَاتٌ مَا بَيْنَهُنَّ إِذَا اجْتُنِبَتِ الْكَبَائِرُ. (صحیح مسلم، حدیث: 233) ترجمہ: پانچ نمازیں، ایک جمعہ سے دوسرا جمعہ، اور ایک رمضان سے دوسرا رمضان، ان کے درمیان ہونے والے (صغیرہ) گناہوں کا کفارہ ہیں، بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے بچا جائے۔

جمعہ کی رات اور دن میں قبولیتِ دعا_
“>عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ ﷺ ذَكَرَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَقَالَ: فِيهِ سَاعَةٌ، لَا يُوَافِقُهَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي يَسْأَلُ اللّٰهَ شَيْئًا إِلَّا أَعْطَاهُ إِيَّاهُ.” (صحیح البخاری، حدیث: 935؛ صحیح مسلم، حدیث: 852) ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے جمعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: اس میں ایک ایسی گھڑی ہے کہ جو مسلمان بندہ اس گھڑی میں کھڑا ہو کر نماز پڑھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے کچھ مانگے، تو اللہ اسے عطا فرما دیتا ہے۔

جمعہ کا غسل اور صفائی کرنا مستحب ہے_
“عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ: غُسْلُ يَوْمِ الْجُمُعَةِ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ مُحْتَلِمٍ. (صحیح البخاری، حدیث: 879؛ صحیح مسلم، حدیث: 846) ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جمعہ کے دن غسل کرنا ہر بالغ پر واجب ہے۔

جمعہ کے دن جلدی آنے کی فضیلت_
“عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ ﷺ قَالَ: مَنِ اغْتَسَلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، ثُمَّ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الْأُولَى فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ بَدَنَةً، وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الثَّانِيَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ بَقَرَةً، وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الثَّالِثَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ كَبْشًا أَقْرَنَ، وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الرَّابِعَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ دَجَاجَةً، وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الْخَامِسَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ بَيْضَةً، فَإِذَا خَرَجَ الْإِمَامُ حَضَرَتِ الْمَلَائِكَةُ يَسْتَمِعُونَ الذِّكْرَ. (صحیح البخاری، حدیث: 881؛ صحیح مسلم، حدیث: 850) ترجمہ: جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے اور پہلی ساعت میں جائے، تو گویا اس نے اللہ کی راہ میں اونٹ قربان کیا، دوسری ساعت میں جائے تو گویا گائے قربان کی، تیسری ساعت میں جائے تو گویا سینگوں والا مینڈھا قربان کیا، چوتھی ساعت میں جائے تو گویا مرغی قربان کی، اور پانچویں ساعت میں جائے تو گویا انڈہ قربان کیا، اور جب امام خطبہ دینے کے لیے آتا ہے تو فرشتے ذکر سننے کے لیے حاضر ہو جاتے ہیں۔

جمعہ کی نماز چھوڑنے پر سخت وعید_
” عَنْ أَبِي جَعْدٍ الضَّمْرِيِّ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: مَنْ تَرَكَ ثَلَاثَ جُمَعٍ تَهَاوُنًا بِهَا طَبَعَ اللّٰهُ عَلَى قَلْبِهِ.” (سنن أبي داود، حدیث: 1052؛ سنن الترمذي، حدیث: 500) ترجمہ: جو شخص سستی کی وجہ سے تین جمعے چھوڑ دے، اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔

جمعہ کی نماز کے لیے مکمل خاموشی ضروری ہے_
“عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: إِذَا قُلْتَ لِصَاحِبِكَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ: أَنْصِتْ، وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ، فَقَدْ لَغَوْتَ. (صحیح البخاری، حدیث: 934؛ صحیح مسلم، حدیث: 851) ترجمہ: اگر تم نے جمعہ کے دن اپنے ساتھی سے کہا کہ خاموش ہو جاؤ، جبکہ امام خطبہ دے رہا ہو، تو تم نے لغو کام کیا۔

جمعہ کے دن سورہ کہف کی تلاوت کی فضیلت_
“عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ: مَنْ قَرَأَ سُورَةَ الْكَهْفِ فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ، أَضَاءَ لَهُ مِنَ النُّورِ مَا بَيْنَ الْجُمُعَتَيْنِ. (سنن النسائي، حدیث: 1396؛ سنن البيہقي، حدیث: 5992) ترجمہ: جو شخص جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھے، اس کے لیے دو جمعوں کے درمیان نور روشن کر دیا جاتا ہے۔

جمعہ کے دن درود شریف کی فضیلت_
“عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: أَكْثِرُوا الصَّلَاةَ عَلَيَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَإِنَّهُ مَشْهُودٌ تَشْهَدُهُ الْمَلَائِكَةُ. (سنن ابن ماجہ، حدیث: 1085) ترجمہ: مجھ پر جمعہ کے دن کثرت سے درود بھیجا کرو، کیونکہ یہ دن مشہود ہے، اس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔

جمعہ کی نماز کا اجر_
“عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: مَنِ اغْتَسَلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَتَطَهَّرَ مَا اسْتَطَاعَ مِنْ طُهْرٍ، ثُمَّ تَدَهَّنَ، أَوْ مَسَّ مِنْ طِيبٍ، ثُمَّ رَاحَ فَلَمْ يُفَرِّقْ بَيْنَ اثْنَيْنِ، فَصَلَّى مَا كُتِبَ لَهُ، ثُمَّ إِذَا خَرَجَ الْإِمَامُ أَنْصَتَ، غُفِرَ لَهُ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجُمُعَةِ الْأُخْرَى. (صحیح البخاری، حدیث: 883) ترجمہ: جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے، اچھی طرح پاکی حاصل کرے، تیل لگائے یا خوشبو لگائے، پھر مسجد جائے، دو آدمیوں کے درمیان نہ گھسے، جو نماز مقدر ہو پڑھے، جب امام خطبہ دینے نکلے تو خاموشی اختیار کرے، تو اس کے پچھلے جمعہ اور اس کے درمیان کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔

آثار صحابہ میں جمعہ کی فضیلت#
1. حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں_
“إِذَا اسْتَوَى الإِمَامُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ عَلَى الْمِنْبَرِ فَلَا صَلَاةَ وَلَا كَلاَمَ. (مصنف ابن أبي شيبة، حدیث: 5325) ترجمہ: جب امام جمعہ کے دن منبر پر بیٹھ جائے تو نہ نماز جائز ہے اور نہ گفتگو۔

2. حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ارشاد_
“إِنَّ اللَّهَ يَجْمَعُ النَّاسَ فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ، وَهُوَ يَوْمُ زِينَةٍ وَكَرَامَةٍ”. (مصنف عبد الرزاق، حدیث: 5501)
ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ لوگوں کو جمعہ کے دن جمع فرماتا ہے، اور یہ عزت و زینت کا دن ہے۔

جمعہ کے فضائل میں فقہائے اسلام کے پانچ مزید حوالے#
فقہائے اسلام نے جمعہ کے دن کی فضیلت پر مختلف کتب میں تفصیلی بحث کی ہے۔ ذیل میں پانچ معتبر فقہی کتب کے حوالے دیے جا رہے ہیں

علامہ مرغینانی (متوفی 593ھ)_
(فقہ حنفی میں فرماتے ہیں)”وَيَوْمُ الْجُمُعَةِ أَفْضَلُ الْأَيَّامِ، لِمَا فِيهِ مِنَ الْفَضَائِلِ الْمَذْكُورَةِ فِي الْكُتُبِ، وَفِيهِ اجْتِمَاعُ الْمُسْلِمِينَ عَلَى الطَّاعَةِ، وَفِيهِ سَاعَةُ الْإِجَابَةِ، وَفِيهِ تَتَجَلَّى رَحْمَةُ اللَّهِ تَعَالَى عَلَى الْعِبَادِ.
(الہدایہ، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجمعۃ، 1/120) ترجمہ: جمعہ کا دن تمام دنوں سے افضل ہے، کیونکہ اس میں بے شمار فضائل ہیں، اسی دن مسلمان عبادت کے لیے جمع ہوتے ہیں، قبولیتِ دعا کی گھڑی اسی دن میں ہے اور اسی دن اللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے۔

امام نووی (متوفی 676ھ)_
(فقہ شافعی میں فرماتے ہیں)”وَيَكُونُ يَوْمُ الْجُمُعَةِ سَيِّدَ الْأَيَّامِ، وَهُوَ أَفْضَلُهَا، وَفِيهِ خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ، وَفِيهِ أُدْخِلَ الْجَنَّةَ، وَفِيهِ أُخْرِجَ مِنْهَا، وَفِيهِ سَاعَةٌ لَا يُوَافِقُهَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ يَسْأَلُ اللَّهَ خَيْرًا إِلَّا أَعْطَاهُ” (المجموع، شرح المهذب، 4/347) ترجمہ: جمعہ تمام دنوں کا سردار اور سب سے افضل ہے، اسی دن اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا، اسی دن انہیں جنت میں داخل کیا، اسی دن انہیں جنت سے نکالا گیا، اور اسی دن ایک گھڑی ایسی ہے کہ جو بندہ اس میں اللہ تعالیٰ سے کوئی بھلائی مانگے، وہ اسے عطا کر دی جاتی ہے۔

امام ابن قدامہ رحمہ اللّٰہ تعالیٰ(متوفی 620ھ)_
(فقہ حنبلی میں فرماتے ہیں)”وَيَوْمُ الْجُمُعَةِ خَيْرُ الْأَيَّامِ، وَفِيهِ خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ، وَفِيهِ أُدْخِلَ الْجَنَّةَ، وَفِيهِ أُخْرِجَ مِنْهَا، وَفِيهِ سَاعَةٌ لَا يُوَافِقُهَا عَبْدٌ مُؤْمِنٌ يَسْأَلُ اللَّهَ خَيْرًا إِلَّا أَعْطَاهُ. (المغنی، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجمعۃ، 2/245) ترجمہ: جمعہ تمام دنوں میں بہترین دن ہے، اسی دن اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا، اسی دن انہیں جنت میں داخل کیا اور اسی دن جنت سے نکالا، اور اسی دن ایک ایسی گھڑی ہے کہ جو مومن بندہ اس میں اللہ تعالیٰ سے کوئی بھلائی طلب کرے، وہ اسے عطا کی جاتی ہے۔

امام ابن عبدالبر رحمہ اللّٰہ تعالیٰ(متوفی 463ھ)_
(فقہ مالکی میں فرماتے ہیں)”وَقَدْ وَرَدَ فِي فَضْلِ يَوْمِ الْجُمُعَةِ أَحَادِيثُ كَثِيرَةٌ، وَمِنْهَا أَنَّهُ خَيْرُ يَوْمٍ طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ، وَفِيهِ خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ، وَفِيهِ تَقُومُ السَّاعَةُ، وَفِيهِ سَاعَةٌ لَا يُوَافِقُهَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ وَهُوَ يُصَلِّي يَسْأَلُ اللَّهَ إِلَّا أَعْطَاهُ. (الاستذكار، کتاب الصلاۃ، باب فضل یوم الجمعۃ، 2/65) ترجمہ: جمعہ کے دن کی فضیلت میں کئی احادیث وارد ہوئی ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ یہ وہ بہترین دن ہے جس پر سورج طلوع ہوتا ہے، اسی دن اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا، اسی دن قیامت برپا ہوگی، اور اسی دن ایک ایسی گھڑی ہے کہ جو مسلمان بندہ اس میں نماز میں ہو اور اللہ سے سوال کرے تو اسے عطا کر دیا جاتا ہے۔

امام سرخسی (متوفی 490ھ)_
(فقہ حنفی میں فرماتے ہیں)”وَيَسْتَحِبُّ التَّبْكِيرُ إِلَى الْجُمُعَةِ لِمَا فِيهِ مِنَ الْأَجْرِ الْعَظِيمِ، وَهُوَ يَوْمُ عِيدٍ لِلْمُسْلِمِينَ، وَفِيهِ تَجَلِّي الرَّحْمَةِ، وَإِجَابَةُ الدُّعَاءِ”.(المبسوط، کتاب الصلاۃ، باب الجمعة، 2/23) ترجمہ: جمعہ کی نماز کے لیے جلدی جانا مستحب ہے کیونکہ اس میں بہت زیادہ اجر ہے، یہ مسلمانوں کے لیے عید کا دن ہے، اس دن اللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے اور دعائیں قبول کی جاتی ہیں۔

یہ پانچ حوالے فقہائے اسلام کی مستند کتب سے جمعہ کے دن کی فضیلت کو واضح کرتے ہیں۔ ان میں یہ بات مشترک ہے کہ جمعہ تمام دنوں میں افضل ہے، اس دن دعا کی قبولیت کی گھڑی ہوتی ہے، حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق اور دیگر اہم واقعات اسی دن پیش آئے، اور یہ دن مسلمانوں کے لیے خصوصی عبادات کا موقع ہے۔

فقہائے احناف کے نزدیک جمعہ کے فضائل، شرائط اور احکام#
فقہ حنفی میں جمعہ کے فضائل، شرائط اور احکام پر تفصیلی مباحث کتبِ فقہ میں موجود ہیں۔ ذیل میں فقہ حنفی کے معتبر مراجع سے مستند اقوال عربی متن، ترجمہ اور حوالوں کے ساتھ پیش کیے جا رہے ہیں۔

جمعہ کی فضیلت فقہائے احناف کے نزدیک_
علامہ مرغینانی (متوفی 593ھ) رحمہ اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں_
“وَيَوْمُ الْجُمُعَةِ أَفْضَلُ الْأَيَّامِ، لِمَا فِيهِ مِنَ الْفَضَائِلِ الْمَذْكُورَةِ فِي الْكُتُبِ، وَفِيهِ اجْتِمَاعُ الْمُسْلِمِينَ عَلَى الطَّاعَةِ، وَفِيهِ سَاعَةُ الْإِجَابَةِ، وَفِيهِ تَتَجَلَّى رَحْمَةُ اللَّهِ تَعَالَى عَلَى الْعِبَادِ”. (الہدایہ، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجمعۃ، 1/120) ترجمہ: جمعہ کا دن تمام دنوں سے افضل ہے، کیونکہ اس میں وہ فضائل ہیں جو کتب میں مذکور ہیں، اسی دن مسلمان طاعت کے لیے جمع ہوتے ہیں، اسی دن قبولیتِ دعا کی ساعت ہے اور اسی دن اللہ تعالیٰ کی رحمت بندوں پر نازل ہوتی ہے۔

جمعہ کے فرض ہونے کی شرائط فقہ حنفی میں_
علامہ ابن ہمام (متوفی 861ھ) رحمہ اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں_
“وَشُرُوطُ وُجُوبِ الْجُمُعَةِ خَمْسَةٌ: الْإِسْلَامُ، وَالْبُلُوغُ، وَالْعَقْلُ، وَالْحُرِّيَّةُ، وَالإِقَامَةُ فِي مِصْرٍ”. (فتح القدیر، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجمعۃ، 2/35) ترجمہ: جمعہ کے وجوب کی پانچ شرائط ہیں: (1) اسلام، (2) بلوغت، (3) عقل، (4) آزادی (غلام پر فرض نہیں)، (5) ایسے شہر میں اقامت جہاں جمعہ کا قیام ممکن ہو۔

علامہ کاسانی (متوفی 587ھ) رحمہ اللّٰہ تعالیٰ لکھتے ہیں_
“وَأَمَّا شُرُوطُ الْوُجُوبِ فَهِيَ: الْإِسْلَامُ، وَالْبُلُوغُ، وَالْعَقْلُ، وَالذُّكُورِيَّةُ، وَالْحُرِّيَّةُ، وَالإِقَامَةُ فِي مِصْرٍ مِنَ الْأَمْصَارِ.” (بدائع الصنائع، کتاب الصلاۃ، باب شروط وجوب الجمعۃ، 1/256) ترجمہ: جمعہ کے وجوب کی شرائط یہ ہیں (1) اسلام، (2) بلوغت، (3) عقل، (4) مرد ہونا (عورتوں پر فرض نہیں)، (5) آزادی، (6) کسی بڑے شہر میں اقامت۔

جمعہ کے قیام کی شرائط فقہ حنفی میں_
علامہ شامی (ابن عابدین، متوفی 1252ھ) رحمہ اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں_
“وَشُرُوطُ الْإِقَامَةِ سِتَّةٌ: الْمِصْرُ، وَالْأَمِيرُ، وَالْجَمَاعَةُ، وَالْخُطْبَةُ، وَالظُّهْرُ، وَالْإِذْنُ الْعَامُّ.” (رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجمعۃ، 2/152) ترجمہ: جمعہ کے قیام کی چھ شرائط ہیں (1) شہر ہونا، (2) امیر یا اس کا نائب، (3) جماعت کا ہونا، (4) خطبہ دینا، (5) ظہر کا وقت، (6) عام اجازت (کہ ہر شخص شریک ہو سکے)۔

جمعہ کے دن غسل اور خوشبو لگانے کی فضیلت_
امام طحاوی (متوفی 321ھ) رحمہ اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں_
“وَقَدْ جَاءَ فِي الْحَدِيثِ أَنَّ مَنِ اغْتَسَلَ وَتَطَيَّبَ وَذَهَبَ إِلَى الْجُمُعَةِ فَلَهُ أَجْرٌ كَبِيرٌ.” (شرح معانی الآثار، باب فضل الغسل للجمعة، 1/291) ترجمہ: حدیث میں آیا ہے کہ جو شخص غسل کرے، خوشبو لگائے اور جمعہ کی طرف جائے، اس کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔

جمعہ کے دن جلدی مسجد جانے کی فضیلت_
امام سرخسی (متوفی 490ھ) رحمہ اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں_
وَيُسْتَحَبُّ التَّبْكِيرُ إِلَى الْجُمُعَةِ لِمَا فِيهِ مِنَ الْأَجْرِ الْعَظِيمِ”. (المبسوط، کتاب الصلاۃ، باب الجمعة، 2/23) ترجمہ: جمعہ کے دن جلدی مسجد جانا مستحب ہے، کیونکہ اس میں بڑا اجر ہے۔

جمعہ کی نماز چھوڑنے پر وعید_
امام طحطاوی (متوفی 1231ھ) رحمہ اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں_
“وَتَحْرُمُ إِضَاعَةُ الْجُمُعَةِ بِلَا عُذْرٍ، لِقَوْلِهِ ﷺ: “مَنْ تَرَكَ الْجُمُعَةَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ طَبَعَ اللّٰهُ عَلَى قَلْبِهِ” (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح، ص: 289) ترجمہ: بلا عذر جمعہ چھوڑنا حرام ہے، کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: “جو شخص تین مرتبہ جمعہ چھوڑ دے، اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے”۔

جمعہ کی نماز میں امام کی اقتدا کا حکم_
امام حصکفی (متوفی 1088ھ) رحمہ اللّٰہ تعالیٰ لکھتے ہیں_
“وَيَجِبُ عَلَى الْمَأْمُومِ مُتَابَعَةُ الْإِمَامِ فِي صَلَاةِ الْجُمُعَةِ، فَإِنْ سَبَقَهُ بِرُكُوعٍ لَمْ تَصِحَّ جُمُعَتُهُ.” (الدر المختار، کتاب الصلاۃ، باب الجمعة، 2/128) ترجمہ: مقتدی پر لازم ہے کہ وہ جمعہ کی نماز میں امام کی اتباع کرے، اگر وہ امام سے پہلے رکوع کر لے تو اس کی جمعہ کی نماز صحیح نہیں ہوگی۔

یہ فقہ حنفی کے اصول و قواعد کے مطابق جمعہ کی نماز کے فضائل، شرائط اور احکام کا ایک مختصر خلاصہ ہے۔ ان تمام احکام پر عمل کرنے سے جمعہ کی نماز کی برکات حاصل ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔دیہات و قصبات میں جمعہ پڑھنے کی

اجازت اور شرعی احکام (فقہ حنفی کی روشنی میں)#
دیہات اور قصبات میں جمعہ کے قیام کے بارے میں فقہ حنفی میں تفصیلی بحث ملتی ہے۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ آیا جمعہ کی نماز ان مقامات پر جائز اور درست ہے یا نہیں۔ اس پر فقہاء مختلف شرائط و قیود لگائی ہیں جو درج ذیل ہیں

دیہات میں جمعہ کے وجوب کی شرط#
فقہ حنفی میں جمعہ صرف ایسے شہر (مصر) یا بڑی بستی میں واجب ہوتا ہے جہاں قاضی، امیر، یا اس کا نائب موجود ہو۔ اس کے بغیر جمعہ فرض نہیں ہوتا، بلکہ وہاں ظہر کی نماز ادا کی جائے گی۔

امام سرخسی (متوفی 490ھ) فرماتے ہیں_
“وَشُرُوطُ وُجُوبِ الْجُمُعَةِ أَنْ يَكُونَ فِي مِصْرٍ أَوْ مِصْرَةٍ كَبِيرَةٍ، وَأَنْ يَكُونَ فِيهَا أَمِيرٌ أَوْ قَاضٍ يُقِيمُ الْحُدُودَ وَيَفْصِلُ فِي الْقَضَايَا. (المبسوط، کتاب الصلاۃ، باب شروط وجوب الجمعة، 2/23) ترجمہ: جمعہ کے وجوب کی شرط یہ ہے کہ وہ کسی شہر (مصر) یا بڑی بستی میں ہو، اور وہاں کوئی امیر یا قاضی موجود ہو جو شرعی حدود قائم کرے اور مقدمات کے فیصلے کرے۔

علامہ کاسانی کے نزدیک دیہات میں جمعہ جائز نہیں، بلکہ ظہر واجب ہے_
علامہ کاسانی (متوفی 587ھ) رحمہ اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں_
“وَأَمَّا فِي الْقُرَى فَلَا يُقِيمُونَ الْجُمُعَةَ، وَلَا تَصِحُّ مِنْهُمْ، لِأَنَّ الشَّرْطَ لَمْ يَتَحَقَّقْ، وَيُصَلُّونَ الظُّهْرَ. (بدائع الصنائع، کتاب الصلاۃ، باب شروط وجوب الجمعة، 1/256) ترجمہ: دیہات میں جمعہ قائم نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی وہاں جمعہ کی نماز صحیح ہوگی، کیونکہ (فقہ حنفی کی) شرط پوری نہیں ہوتی، لہٰذا وہ لوگ ظہر کی نماز پڑھیں گے۔

قصبات میں جمعہ کے جواز کے اقوال#
فقہائے احناف میں سے بعض علماء نے کہا کہ اگر کوئی بڑا قصبہ ہے جہاں بازار، جامع مسجد اور بڑی آبادی ہو، تو وہاں جمعہ جائز ہو سکتا ہے، مگر بالکل کور چھوٹے دیہات میں نہیں۔

علامہ طحطاوی (متوفی 1231ھ) فرماتے ہیں_
” وَإِذَا كَانَ الْقَرْيَةُ كَبِيرَةً، وَفِيهَا سُوْقٌ وَمَسْجِدٌ جَامِعٌ، فَهُنَالِكَ اخْتِلَافٌ بَيْنَ الْفُقَهَاءِ فِي إِقَامَةِ الْجُمُعَةِ.” (حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، ص: 289) ترجمہ: اگر کوئی بستی بڑی ہو، اس میں بازار اور جامع مسجد ہو، تو فقہاء کے درمیان اختلاف ہے کہ آیا وہاں جمعہ قائم کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔

امام ابو یوسف اور امام محمد رضی اللہ تعالیٰ عنھما کا فی زماننا مفتیٰ بہ قول#
فقہ حنفی میں امام ابو یوسف اور امام محمد (صاحبین) رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے اقوال زیادہ نرمی کی طرف مائل ہیں، جبکہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک دیہات میں جمعہ درست نہیں۔
امام ابن ہمام (متوفی 861ھ) رحمہ اللّٰہ تعالیٰ لکھتے ہیں_
” وَقَالَ أَبُو يُوسُفَ وَمُحَمَّدٌ: يُقَامُ الْجُمُعَةُ فِي الْقُرَى إِذَا كَانَتْ كَبِيرَةً وَمُجْتَمِعَةَ السُّكَّانِ، وَهَذَا قَوْلٌ لِلْفَتْوَى فِي زَمَانِنَا”. (فتح القدیر، کتاب الصلاۃ، باب الجمعة، 2/35) ترجمہ: امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہما اللہ نے فرمایا: اگر کوئی بستی بڑی ہو اور لوگ کثرت سے وہاں مقیم ہوں، تو وہاں جمعہ قائم کیا جا سکتا ہے۔ اور ہمارے زمانے میں اسی پر فتویٰ دیا گیا ہے۔

عصرِ حاضر میں فقہائے احناف کا رجحان#
آج کل کئی فقہائے احناف امام ابو یوسف اور امام محمد کی رائے کو اختیار کرتے ہوئے بڑے قصبوں میں جمعہ کے قیام کی اجازت دیتے ہیں۔

فقیر مداری ابو الحماد حیدری المداری کے نزدیک_
“آج کل بڑے قصبات اور گاؤں بھی چھوٹے شہروں کی مانند ہو گئے ہیں آبادی کا تناسب شہروں کی طرح بہت زیادہ ہے ، لہٰذا وہاں حضرت امام ابو یوسف رضی اللہ عنہ کے مفتیٰ بہ قول پر فتویٰ ہوگا اور وہاں جمعہ کی اجازت ہوگی، مگر بہت چھوٹے اور کور دیہات میں جمعہ نہیں ہے بلکہ وہاں کے لوگ یا وہاں جائیں جہاں جہاں جمعہ کی نماز ہوتی ہے یا اپنے گاؤں میں ظہر کی نماز پڑھیں۔”

دیہات و قصبات میں جہاں جمعہ کا قیام ہو چکا ہو، وہاں اسے جاری رکھنے کا حکم فقہائے احناف کے نزدیک#
فقہ حنفی کے اصولوں کے مطابق دیہات اور قصبات میں ابتداءً جمعہ قائم کرنا جائز نہیں، لیکن اگر کسی مقام پر قدیم زمانے سے جمعہ پڑھا جا رہا ہو اور عوام اس پر متفق ہو چکی ہو، تو بعض فقہاء نے اس کے بقا کی اجازت دی ہے تاکہ لوگوں میں انتشار نہ ہو۔

فتاویٰ عالمگیری کی تصریح_
فتاویٰ عالمگیری میں اس مسئلے کی وضاحت ان الفاظ میں کی گئی ہے:
” فِي قَرْيَةٍ يُصَلُّونَ الْجُمُعَةَ مُنْذُ زَمَانٍ طَوِيلٍ وَعَلَيْهِمْ الْعَادَةُ وَيَجْتَمِعُونَ عَلَيْهِ، فَإِنَّهُ يُقْبَلُ لَهُمْ ذَلِكَ وَلَا يُنْكَرُ عَلَيْهِمْ، لِأَنَّ فِي مَنْعِهِمْ فَسَادًا وَاخْتِلَافًا”. (الفتاویٰ الہندیہ، کتاب الصلاة، باب الجمعة، 1/149) ترجمہ: اگر کسی گاؤں میں طویل عرصے سے جمعہ کی نماز پڑھی جا رہی ہو، اور اس پر لوگ متفق ہو چکے ہوں، تو انہیں اس سے منع نہیں کیا جائے گا، کیونکہ منع کرنے میں فتنے اور اختلاف کا اندیشہ ہے۔

امام طحطاوی کی وضاحت_
علامہ احمد طحطاوی رحمہ اللہ نے ایسے مقام پر جمعہ جاری رکھنے کے جواز کی طرف اشارہ کیا ہے جہاں یہ ایک مستقل عادت بن چکا ہو: “وَإِذَا كَانَتِ الْقَرْيَةُ كَبِيرَةً، وَفِيهَا السُّوقُ وَالْمَسْجِدُ الْجَامِعُ، وَقَدْ اُقِيمَ فِيهَا الْجُمُعَةُ مُنْذُ زَمَانٍ، فَلَا يُمْنَعُ النَّاسُ مِنْهُ، إِذَا كَانَ تَرْكُهُ يُؤَدِّي إِلَى الْفِتْنَةِ وَالتَّفْرِقَةِ (حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، ص: 289) ترجمہ: اگر کوئی بستی بڑی ہو، اس میں بازار اور جامع مسجد ہو، اور وہاں جمعہ کا قیام قدیم زمانے سے ہو رہا ہو، تو لوگوں کو اس سے نہیں روکا جائے گا، خاص طور پر اگر اسے روکنے سے فتنہ اور اختلاف پیدا ہو۔

امام ابن عابدین شامی کی رائے_
امام ابن عابدین رحمہ اللہ نے ایسے علاقوں میں جہاں جمعہ ایک عادت بن چکا ہو، اس کے بقا کو ضروری قرار دیا ہے: “وَقَدْ قَالَ بَعْضُ الْمَشَايِخِ: مَتَى أُقِيمَتْ الْجُمُعَةُ فِي قَرْيَةٍ مُدَّةً طَوِيلَةً، وَأَلِفَهَا النَّاسُ، فَلَا يُمْنَعُونَ مِنْهَا لِأَنَّ فِي ذَلِكَ مَفْسَدَةً. (رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الصلاة، باب الجمعة، 2/147) ترجمہ: بعض مشائخ نے فرمایا کہ اگر کسی گاؤں میں طویل عرصے سے جمعہ پڑھا جا رہا ہو اور لوگ اس کے عادی ہو چکے ہوں، تو انہیں اس سے نہیں روکا جائے گا، کیونکہ اس میں فساد اور فتنہ کا اندیشہ ہے۔

دیہات، قصبات اور چھوٹے ٹاؤن ایریا میں جمعہ کے بعد “احتیاطی ظہر” پڑھنے کی شرعی حیثیت فقہائے احناف کی نظر میں#

بعض علاقوں میں جمعہ کے جواز میں اختلاف کی بنیاد پر بعض ائمہ اور عوام احتیاطاً جمعہ کے بعد ظہر کی چار رکعات باجماعت ادا کرتے ہیں۔ لیکن فقہائے احناف نے اس عمل کو ناجائز اور فتنہ و فساد کا باعث قرار دیا ہے، کیونکہ یہ شریعت میں نیا طریقہ ہے جو غیر ضروری شبہات اور بدعات کو جنم دیتا ہے۔

امام ابن عابدین شامی قدس سرہٗ السامی کا موقف_
امام ابن عابدین شامی رحمہ اللہ نے جمعہ کے بعد احتیاطی ظہر کو بدعت اور غیر شرعی عمل قرار دیا ہے: قَدْ ظَهَرَ فِي بَعْضِ الْأَمْصَارِ أَنَّهُمْ يُصَلُّونَ الظُّهْرَ بَعْدَ الْجُمُعَةِ احْتِيَاطًا وَهَذَا مِنْ الْبِدَعِ وَالْمُنْكَرَاتِ” (رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الصلاة، باب الجمعة، 2/167) ترجمہ: بعض شہروں میں یہ رواج پیدا ہو گیا ہے کہ وہ جمعہ کے بعد احتیاطاً ظہر ادا کرتے ہیں، حالانکہ یہ بدعات اور منکرات میں سے ہے۔

فتاویٰ عالمگیری کی وضاحت_
فتاویٰ عالمگیری میں بھی جمعہ کے بعد ظہر پڑھنے کے عمل کو غیر ضروری قرار دیا گیا ہے: “وَمَنْ صَلَّى الْجُمُعَةَ، فَلَا يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يُعِيدَ الظُّهْرَ احْتِيَاطًا، فَإِنَّ ذَلِكَ يُؤَدِّي إِلَى الشَّكِّ فِي صِحَّةِ الْجُمُعَةِ، وَيَفْتَحُ بَابَ الْوَسْوَاسِ”. (الفتاوی الہندیہ، کتاب الصلاة، باب الجمعة، 1/151) ترجمہ: جو شخص جمعہ ادا کر چکا ہو، اس کے لیے احتیاطاً ظہر کی نماز دوبارہ ادا کرنا مناسب نہیں، کیونکہ اس سے جمعہ کی صحت پر شک پیدا ہوگا اور وسوسے کا دروازہ کھلے گا۔

امام طحطاوی رحمہ اللّٰہ تعالیٰ کی تصریح_
علامہ احمد طحطاوی رحمہ اللہ نے جمعہ کے بعد احتیاطی ظہر کو ناجائز قرار دیا ہے، کیونکہ اس سے لوگوں میں انتشار اور غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں: “وَإِذَا شُرِعَ فِي بَعْضِ الْقُرَى أَنْ يُصَلُّوا الظُّهْرَ بَعْدَ الْجُمُعَةِ، فَهَذَا يُؤَدِّي إِلَى الشُّكُوكِ وَالتَّفْرِقَةِ، وَالأَحْوَطُ تَرْكُهُ. (حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، ص: 291) ترجمہ: اگر کسی بستی میں جمعہ کے بعد ظہر پڑھنے کا رواج ہو جائے تو یہ شکوک و شبہات اور اختلافات کو جنم دے گا، اس لیے بہتر یہ ہے کہ اس عمل کو چھوڑ دیا جائے۔

امام سرخسی رحمہ اللّٰہ تعالیٰ کا فتویٰ_
فقیہ امام کرخی رحمہ اللہ نے احتیاطی طور پر ظہر پڑھنے کو بدعت اور ناجائز قرار دیا ہے، کیونکہ یہ مسلمانوں میں بلا وجہ شک و شبہ پیدا کرتا ہے: “إِنَّ الْمُصَلِّي لِلْجُمُعَةِ إِذَا أَعَادَ الظُّهْرَ احْتِيَاطًا، فَقَدْ خَالَفَ السُّنَّةَ وَأَوْقَعَ النَّاسَ فِي الشَّكِّ، فَهُوَ مُبْتَدِعٌ فِي دِينِهِ”. (المبسوط للسرخسی، کتاب الجمعة، 2/37) ترجمہ: جو شخص جمعہ کے بعد احتیاطاً ظہر ادا کرے، وہ سنت کے خلاف کام کر رہا ہے اور اس کے ذریعے لوگوں میں بے جا شک ڈال رہا ہے، پس وہ دین میں بدعت کا مرتکب ہو رہا ہے-

ظہر احتیاطی کے بارے میں مزید فقہاء کے اقوال اور اس کے شرعی احکام#
فقہائے احناف سمیت جمہور علماء کے نزدیک جمعہ کے بعد مسجد میں باجماعت احتیاطی ظہر پڑھنا بدعت اور غیر شرعی عمل ہے۔ اس پر کئی اکابر فقہاء نے تفصیلی گفتگو کی ہے۔ بعض فقہاء نے اگر کسی کو شدید شک ہو تو ظہر منفرداً اپنے گھر میں خفیہ طور پر پڑھنے کی اجازت دی ہے، لیکن اسے عام کرنے یا جماعت کے ساتھ ادا کرنے کو سختی سے منع کیا ہے۔

ظہر احتیاطی کے بارے میں امام کرخی کا موقف_
” وَمَنْ أَعَادَ الظُّهْرَ احْتِيَاطًا فِي الْمَسْجِدِ فَقَدْ أَحْدَثَ فِي الدِّينِ، وَإِنْ صَلَّاهَا مُنْفَرِدًا فِي بَيْتِهِ دُونَ تَشْهِيرٍ فَلَا بَأْسَ بِذَلِكَ. (شرح مختصر الطحاوی، 1/230) ترجمہ: جو شخص احتیاطاً مسجد میں ظہر دوبارہ ادا کرے، وہ دین میں نیا طریقہ ایجاد کر رہا ہے۔ البتہ اگر وہ اسے اپنے گھر میں منفرد طور پر بغیر اعلان کے ادا کرے، تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

احتیاطی ظہر گھر میں منفرداً پڑھنے کے بارے میں مزید فقہائے اسلام کے اقوال#
بعض فقہائے کرام نے اگر کسی شخص کو واقعی شدید شبہ ہو کہ اس کا جمعہ صحیح طور پر ادا ہوا ہے یا نہیں، تو اسے مسجد میں نہیں بلکہ اپنے گھر میں اکیلے، بغیر اعلان کے ظہر پڑھنے کی اجازت دی ہے۔ تاہم، اس عمل کو شریعت میں مستقل اصول بنانے یا اسے عام کرنے سے سختی سے روکا گیا ہے۔

ظہر احتیاطی باجماعت مسجد میں پڑھنے کے بارے میں امام طحطاوی (فقہ حنفی) رحمہ اللّٰہ تعالیٰ کا فتویٰ_
“إِنْ كَانَ الشَّخْصُ مَشْغُوفًا بِالشُّكُوكِ، فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ فِي أَنْ يُصَلِّيَ الظُّهْرَ فِي بَيْتِهِ سِرًّا، وَلَكِنْ لَا يُظْهِرْهُ فِي النَّاسِ حَتَّى لَا يَكُونَ ذَرِيعَةً لِلْفِتْنَةِ.” (حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، ص: 291) ترجمہ: اگر کوئی شخص وسوسوں میں مبتلا ہے اور اس کے دل میں شبہات آتے ہیں، تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے گھر میں چپکے سے ظہر پڑھ لے، لیکن اسے لوگوں کے سامنے ظاہر نہ کرے تاکہ یہ فتنہ اور انتشار کا سبب نہ بنے۔

مسجد میں باجماعت ظہر احتیاطی پڑھنے کے بارے میں فتاویٰ عالمگیری (فقہ حنفی) کا موقف_
“إِذَا كَانَ أَحَدٌ فِي شَكٍّ مِنْ صِحَّةِ الْجُمُعَةِ، فَإِنَّهُ يُصَلِّيهَا مُنْفَرِدًا فِي بَيْتِهِ، وَلَا يَجُوزُ لَهُ أَنْ يُعِيدَهَا فِي الْمَسْجِدِ وَبِالجَمَاعَةِ، لِأَنَّ ذَلِكَ يُؤَدِّي إِلَى الْفِتْنَةِ وَالتَّشْكِيكِ فِي الدِّينِ.” (الفتاوی الہندیہ، 1/151) ترجمہ: اگر کسی کو جمعہ کی صحت میں شک ہو، تو وہ اپنے گھر میں منفرد طور پر ظہر کی نماز پڑھ لے۔ لیکن اسے مسجد میں جماعت کے ساتھ دوبارہ پڑھنے کی اجازت نہیں ہے، کیونکہ اس سے فتنہ اور دین میں بے جا شک پیدا ہوگا۔

ظہر احتیاطی کے بارے میں امام نووی (فقہ شافعی رحمہ اللّٰہ تعالیٰ) کا موقف”_
“مَنْ شَكَّ فِي صِحَّةِ جُمُعَتِهِ، فَيُسْتَحَبُّ لَهُ أَنْ يُصَلِّيَ الظُّهْرَ فِي بَيْتِهِ سِرًّا دُونَ جَمَاعَةٍ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ ثَمَّةَ سَبَبٌ مُعْتَبَرٌ فَالْأَوْلَى أَنْ لَا يُعِيدَهَا. (المجموع شرح المهذب، 4/500) ترجمہ: جو شخص اپنی جمعہ کی نماز کی صحت میں شک کرے، اس کے لیے مستحب ہے کہ وہ گھر میں چپکے سے ظہر پڑھ لے، لیکن جماعت کے بغیر۔ اگر کوئی معقول شرعی سبب نہ ہو، تو بہتر یہی ہے کہ وہ ظہر دوبارہ نہ پڑھے۔

ظہر احتیاطی باجماعت مسجد میں پڑھنے پرامام ابن ہمام (فقہ حنفی) کا فیصلہ_
“وَلَا يُعِيدُهَا فِي الْمَسْجِدِ، وَإِنْ كَانَ فِي شَكٍّ مِنْ صِحَّتِهَا صَلَّى الظُّهْرَ فِي بَيْتِهِ سِرًّا، لِئَلَّا يَكُونَ ذَلِكَ ذَرِيعَةً لِلْبِدْعَةِ وَالشُّكُوكِ فِي الدِّينِ.” (فتح القدير، 2/35) ترجمہ: جمعہ کے بعد مسجد میں دوبارہ ظہر پڑھنا جائز نہیں، اور اگر کسی کو جمعہ کی صحت میں شبہ ہو، تو وہ اپنے گھر میں چپکے سے ظہر کی نماز ادا کر سکتا ہے، تاکہ یہ بدعت اور دین میں بے جا شکوک و شبہات پیدا کرنے کا ذریعہ نہ بنے۔

امام ابن عابدین شامی (فقہ حنفی) رحمہ اللّٰہ تعالیٰ کا موقف_
“فَإِنْ صَلَّى الظُّهْرَ فِي مَنْزِلِهِ دُونَ إِظْهَارٍ فَلَا بَأْسَ، وَأَمَّا فِي الْمَسْجِدِ وَبِالجَمَاعَةِ فَهُوَ بِدْعَةٌ مُنْكَرَةٌ. (رد المحتار، 2/167) ترجمہ: اگر کوئی شخص اپنے گھر میں چھپ کر ظہر کی نماز پڑھے، تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن اگر وہ مسجد میں جماعت کے ساتھ پڑھے، تو یہ قبیح بدعت ہے۔
خلاصۂ کلام یہ کہ جمعہ کے بعد احتیاطی ظہر پڑھنے کی اصل کوئی بنیاد نہیں، اور اس عمل کو فقہائے احناف نے بدعت اور فتنہ قرار دیا ہے۔
۰ اگر کسی کو واقعی شک ہو، تو وہ گھر میں اکیلے، بغیر اعلان اوربغیر جماعت کے تنہا ظہر ادا کر سکتا ہے-
۰ مسجد میں یا جماعت کے ساتھ احتیاطی ظہر پڑھنا ناجائز اور دین میں وسوسہ اور بدعت پیدا کرنے کے مترادف ہے۔
۰ امام ابن ہمام، امام ابن عابدین، امام کرخی، امام نووی، اور فتاویٰ عالمگیری کے فتاویٰ اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ ظہر احتیاطی کو چھپ کر پڑھنے کی اجازت صرف انفرادی طور پر ہے، ‘ وہ بھی ضرورت کے وقت۔

حتمی فیصلہ#
احتیاطی ظہر کی جماعت کا قیام فتنہ و فساد کا باعث ہے، جبکہ اگر کسی کو واقعی شک ہو، تو وہ گھر میں اکیلے چھپ کر پڑھ سکتا ہے، لیکن اسے عام کرنے کی اجازت نہیں۔
ھٰذا ما ظھر لی والعلم عند ربی وہو اعلم بالصواب-

کتبہ
ابو الحماد محمد اسرافیل حیدری المداری
دار الافتاء جامعہ عربیہ مدار العلوم مدینۃ الاولیاء مکنپور شریف کانپور نگر
9793347086
.

Leave a Comment

Related Post

Top Categories