سوال کیا فرماتے ہیں علمائے دین مسئلۂ ذیل میں کہ تراویح کی نماز کتنی رکعتیں ہیں اور 20, رکعات کا ثبوت کیا ہے نیز ائمہ اربعہ کا کیا مذھب ہے مکمل ثبوت کے ساتھ دلائل پیش کریں ۔
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم الجواب۔
تراویح قرآن مجید سے
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَكَ (سورۃ بنی اسرائیل: 79) ترجمہ: ’’اور رات کے کچھ حصے میں قرآن کے ساتھ تہجد پڑھا کرو، یہ تمہارے لیے نفل ہے۔‘
استدلال: یہ آیت تہجد اور قیام اللیل کی دلیل ہے، اور رمضان میں یہ قیام صلاۃ التراویح کہلاتا ہے،
تراویح نبی کریم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم سے ثابت ہے اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے اسے چند دن جماعت کے ساتھ بھی ادا فرمایا۔ اس سلسلے میں درج ذیل احادیث مبارکہ دلالت کرتی ہیں
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جماعت کے ساتھ تراویح پڑھی
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں: “أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ ذَاتَ لَيْلَةٍ مِنْ جَوْفِ اللَّيْلِ فَصَلَّى فِي الْمَسْجِدِ وَصَلَّى رِجَالٌ بِصَلَاتِهِ، فَأَصْبَحَ النَّاسُ فَتَحَدَّثُوا فَاجْتَمَعَ أَكْثَرُ مِنْهُمْ فَصَلَّوْا مَعَهُ، فَأَصْبَحَ النَّاسُ فَتَحَدَّثُوا فَكَثُرَ أَهْلُ الْمَسْجِدِ مِنَ اللَّيْلَةِ الثَّالِثَةِ، فَخَرَجَ فَصَلَّى وَصَلَّوْا بِصَلَاتِهِ، فَلَمَّا كَانَتِ اللَّيْلَةُ الرَّابِعَةُ عَجَزَ الْمَسْجِدُ عَنْ أَهْلِهِ، فَلَمْ يَخْرُجْ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا أَصْبَحَ قَالَ: “قَدْ رَأَيْتُ الَّذِي صَنَعْتُمْ، فَلَمْ يَمْنَعْنِي مِنَ الْخُرُوجِ إِلَيْكُمْ إِلَّا أَنِّي خَشِيتُ أَنْ تُفْرَضَ عَلَيْكُمْ”. (صحیح البخاری، حدیث: 2012) ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک رات نصف شب میں باہر تشریف لائے اور مسجد میں نماز پڑھی، کچھ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ صبح ہوئی تو لوگوں نے اس بارے میں باتیں کیں، چنانچہ دوسری رات زیادہ لوگ جمع ہوگئے اور انہوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی۔ پھر تیسری رات اور زیادہ لوگ اکٹھے ہوگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ جب چوتھی رات آئی تو مسجد میں اتنے زیادہ لوگ اکٹھے ہوگئے کہ جگہ کم پڑ گئی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف نہ لائے۔ جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: “میں نے تمہارا جوش و خروش دیکھا، مگر میں باہر اس لیے نہیں آیا کہ کہیں یہ (نماز تراویح) تم پر فرض نہ کر دی جائے۔”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین دن تراویح جماعت سے پڑھی
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے: “أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى بِأَصْحَابِهِ لَيْلَةَ الثَّالِثَةِ مِنْ رَمَضَانَ ثُمَّ لَيْلَةَ الرَّابِعَةِ، ثُمَّ اجْتَمَعُوا مِنْ اللَّيْلَةِ التَّالِيَةِ فَلَمْ يَخْرُجْ إِلَيْهِمْ، فَقَالَ لَهُمْ: “إِنِّي خَشِيتُ أَنْ تُفْرَضَ عَلَيْكُمْ”. (سنن ابن ماجہ، حدیث: 1327، صحیح) ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمضان کی تیسری اور چوتھی رات صحابہ کے ساتھ نماز تراویح جماعت کے ساتھ پڑھی۔ پھر جب اگلی رات وہ پھر جمع ہوگئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف نہ لائے اور فرمایا: “مجھے خدشہ ہوا کہ کہیں یہ (نماز) تم پر فرض نہ کر دی جائے۔” ان حدیثوں سے واضع ہو رہا ہے کہ یہ وہ تہجد والے آٹھ رکعات نوافل نہیں تھیں بلکہ یہ ایک خاص قسم کی نماز رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے شروع فرمائی جسے تراویح کے نام سے موسوم کیا گیا ۔
تراویح کی رکعات احادیث مبارکہ سے
سنن البیہقی میں ہے
عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: “كَانُوا يَقُومُونَ عَلَى عَهْدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً”. )سنن البیہقی الکبریٰ، ج 2، ص 496) ترجمہ: سائب بن یزید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لوگ رمضان المبارک میں بیس رکعات تراویح پڑھا کرتے تھے۔
موطأ امام مالک میں ہے
وَحَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ، قَالَ: “كَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ بِثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ رَكْعَةً“. (موطأ امام مالک، حدیث: 249) ترجمہ: یزید بن رومان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لوگ رمضان المبارک میں تیئس رکعات (بیس تراویح + تین وتر) پڑھتے تھے۔
سنن الدارقطنی میں ہے
وَرُوِيَ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ أَمَرَ رَجُلًا أَنْ يُصَلِّيَ بِهِمْ فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً)سنن الدارقطنی، ج 1، ص 342( ترجمہ:حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو رمضان میں بیس رکعات پڑھائے۔
سنن الترمذی میں ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: “كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرَغِّبُ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَأْمُرَ بِعَزِيمَةٍ“. (سنن الترمذی، حدیث: 806) ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کی راتوں میں قیام (تراویح) کی ترغیب دیتے لیکن اسے فرض نہ کرتے۔
سنن ابن ماجہ میں ہے۔
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، قَالَ: “كَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً”. (سنن ابن ماجہ، حدیث: 1323) ترجمہ: حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لوگ رمضان المبارک میں بیس رکعات تراویح پڑھا کرتے تھے۔
امام بیہقی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کی روایت
“وأما نحن فمستمسكون بما نقلته الكافة عن الكافة في كل عصر من عدد الركعات، وهو عشرون ركعة” (السنن الكبرى للبيهقي، 2/496) ترجمہ: ’’ہم اس پر قائم ہیں جو ہر دور میں تمام امت نے نقل کیا ہے، اور وہ تراویح کی بیس (20) رکعات ہیں۔‘‘
فقہ حنفی کی کتابوں سے دلائل
الدر المختار میں ہے وَيُسْتَحَبُّ أَنْ يُصَلِّيَ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ التَّرَاوِيحَ عِشْرِينَ رَكْعَةً. (الدر المختار، ج 2، ص 45) ترجمہ: ماہِ رمضان میں بیس رکعات تراویح پڑھنا مستحب ہے۔
فتاویٰ عالمگیری میں ہے
وَيُسْتَحَبُّ التَّرَاوِيحُ وَهِيَ عِشْرُونَ رَكْعَةً. (الفتاویٰ الہندیہ، ج 1، ص 116) ترجمہ: تراویح مستحب ہے اور یہ بیس رکعات ہیں.
بدائع الصنائع میں ہے
وَيُصَلِّي فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً. (بدائع الصنائع، ج 1، ص 288) ترجمہ: رمضان کی ہر رات بیس رکعات پڑھی جاتی ہیں۔
“المبسوط میں ہے”
قَالَ أَبُو حَنِيفَةَ: التَّرَاوِيحُ عِشْرُونَ رَكْعَةً. (المبسوط للسرخسی، ج 2، ص 145) ترجمہ: امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تراویح بیس رکعات ہیں۔
البحر الرائق میں ہے۔
قِيَامُ رَمَضَانَ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً. (البحر الرائق، ج 2، ص 66) ترجمہ: رمضان میں قیام (تراویح) بیس رکعات ہیں۔
)فقہ مالکی میں) المدونة الکبریٰ میں ہے۔
وَقَدْ جَرَتِ الْعَمَلُ فِي الْمَدِينَةِ عَلَى عِشْرِينَ رَكْعَةً. (المدونة الکبری، ج 1، ص 287) ترجمہ: مدینہ میں عمل بیس رکعات تراویح پر چلا آ رہا ہے۔
)فقہ مالکی میں) مواہب الجلیل میں ہے:
وَصَحَّ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَنَّهُ أَمَرَ بِإِقَامَةِ التَّرَاوِيحِ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً. (مواہب الجلیل، ج 2، ص 89) ترجمہ: یہ ثابت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیس رکعات تراویح قائم کرنے کا حکم دیا۔
)فقہ شافعی میں) المجموع للنووی میں ہے.
وَالْمُسْتَحَبُّ فِي التَّرَاوِيحِ عِشْرُونَ رَكْعَةً. (المجموع شرح المہذب، ج 4، ص 31) ترجمہ: تراویح میں مستحب بیس رکعات ہیں
)فقہ حنبلی میں) المغنی لل قدامہ میں ہے۔
وَالتَّرَاوِيحُ عِشْرُونَ رَكْعَةً فِي رَمَضَانَ. (المغنی، ج 2، ص 172) ترجمہ: رمضان میں تراویح بیس رکعات ہیں۔
یہ دلائل واضح کرتے ہیں کہ تمام فقہی مذاہب میں بیس رکعات تراویح کا ثبوت موجود ہے۔
فقہ حنفی کی کتاب ہدایہ کے مطابق تراویح کی تعداد بیس (20) رکعات ہے، جو سنت مؤکدہ ہے۔)الھدایہ: 1/125(
امام مالک رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ:
مدینہ منورہ میں صحابہ و تابعین بیس (20) رکعات تراویح اور تین رکعات وتر پڑھتے تھے۔ (الموطأ: 1/114)
امام شافعی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ:
“رأيتُ الناسَ يقومونَ بِمكَّةَ في رمضانَ بعشرينَ ركعةً” (كتاب الأم للشافعي: 1/97) ترجمہ: ’’میں نے مکہ مکرمہ میں لوگوں کو بیس (20) رکعات تراویح پڑھتے دیکھا۔‘‘
امام احمد بن حنبل رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ:
“التراويح عشرون ركعة، وهي سنة مؤكدة” (المغني لابن قدامة: 1/803) ترجمہ: ’’تراویح بیس (20) رکعات ہے اور یہ سنت مؤکدہ ہے۔‘‘
حرمین شریفین میں تراویح کی تعداد
امام الوھابیہ علامہ ابن تیمیہ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں
“وأما قيام رمضان، فإن النبي صلى الله عليه وسلم لم يوقت فيها عدداً معيناً، بل كان هو لا يزيد في رمضان ولا غيره على ثلاث عشرة ركعة، لكن كان يطيل الركعات. فلما جمعهم عمر بن الخطاب على أبي بن كعب، كان يصلي بهم عشرين ركعة، ثم يوتر بثلاث، فرأى كثير من العلماء أن هذا هو السنة، لأنه قام لهم بجمعهم على هذا العدد” (مجموع الفتاوی: 23/112) ترجمہ: ’’رمضان کے قیام کے لیے نبی کریم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم نے کوئی خاص تعداد مقرر نہیں فرمائی تھی، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ یا تیرہ رکعات طویل قیام کے ساتھ پڑھتے تھے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بیس رکعات پڑھانے کا حکم دیا، تو جمہور علماء نے اسے سنت قرار دیا۔‘‘
امام طحاوی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:
“وقد اجتمعت الأمة من لدن عمر بن الخطاب رضي الله عنه إلى يومنا هذا على عشرين ركعة“(شرح معاني الآثار، 1/208) ترجمہ: ’’حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور سے لے کر آج تک امت بیس (20) رکعات تراویح پر متفق ہے۔‘‘
حرمین شریفین میں ہمیشہ 20 رکعات کا معمول رہا
امام ابن عبدالبر رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:
“وكان هذا عدد ركعات قيام رمضان بالمدينة في زمن عمر وعثمان وعلي والتابعين وهم أئمة المسلمين” (الاستذكار: 2/69) ترجمہ: ’’مدینہ منورہ میں حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور تابعین کے دور میں قیام رمضان (تراویح) بیس رکعات ہی تھی، اور یہی ائمہ مسلمین کا مسلک تھا۔‘‘
(2) امام کاسانی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ:
“وقد واظب الناس في الحرمين الشريفين على العشرين ركعة“ (بدائع الصنائع: 1/288) ترجمہ: ’’حرمین شریفین میں ہمیشہ سے لوگ بیس (20) رکعات ہی پڑھتے رہے ہیں۔‘‘ غرضیکہ بیس
(20) رکعات تراویح پر اجماع امت ہے۔
- نبی کریم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم کےصحابہ کرام اور ائمہ مجتہدین نے بیس رکعات تراویح کو سنت مؤکدہ قرار دیا ہے۔
- حرمین شریفین میں ہمیشہ سے بیس رکعات تراویح کا معمول رہا ہے۔
- ائمہ اربعہ، تابعین، تبع تابعین اور جمہور فقہاء کا بھی یہی موقف ہے۔
لہذا، بیس (20) رکعات ہی سنت مستحبہ اور افضل ہے۔
کتبہ
ابو الحماد محمد اسرافیل حیدری المداری
دار النور مکنپور شریف کانپور نگر۔