madaarimedia

کیا مداریہ سلسلہ تبرکا جاری ہے اور مرید ہونا جائز نہیں ؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم
کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین مسئلہ مندرجہ ذیل میں
(۱) سلسلئہ مداریہ جاری ہے یاسوخت ؟(۲)ایک مولوی صاحب نے فتویٰ دیاہے کہ سلسلہ تبرکا جاری ہے لیکن مرید ہونا جائز نہیں ۔جواب عنایت فرماکر شکریہ کا موقع دیں ہم آپ کے مشکور ہیں ۔
المستفتیان: جملہ ٹرسٹیان نورانی مسجد باندرہ ممبئی
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُــــــــــــــــــــــــ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِــــــــــــــــــــــــــــــ:
(جوابِ اوّل) سلسلۂ عالیہ مداریہ بیشک بالشان جاری وساری ہے۔ اِس کو سوخت ومنقطع کہنے والا علم سے ناآشنا ہے۔ اس کے جاری وساری ہونے پر بےشمار اولیائے کرام ومشائخ عظام اور علمائے اہلسنت کی کتابیں شاہد ہیں۔ خود سلسلۂ عالیہ قادریہ کے مشائخ اور ان کی بے شمار کتابوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بلاشبہ سلسلۂ مداریہ بالشان جاری ہےاور حضرت سید جمال الاولیا کوڑا جہان آبادی علیہ الرحمہ سے لے کر حضرت سید حسن مارہروی علیہ الرحمہ تک اور اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی سے لے کر مفتی اعظم ہند علیہما الرحمہ تک سلسلۂ برکاتیہ رضویہ کے تمام بزرگوں پر سلسلۂ مداریہ کا فیضان جاری وساری ہےنیز یہ تمام بزرگ سلسلۂ مداریہ کے شکرگزار اور احسان مند ہیں۔ ان سبھوں کے نزدیک سلسلۂ مداریہ جاری، محبوب ودلپسنداور سرتاج وسرفراز ہے۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ کچھ جاہل ناواقف اور حقائق سے ناآشنا مولوی سلسلۂ مداریہ کو سوخت ومنقطع بتا کر ان سارے قادری برکاتی و رضوی بزرگوں کی سخت توہین کرکے مستحقِ عذاب نار ہورہے ہیں۔ اللہ انہیں ہدایت دے۔ اب مزید معلومات اور دلچسپی کے لیے کچھ خاص علمائے رضویہ نیزان کے مشائخ کے ’’ شجرات مداریہ‘‘ پیش کررہاہوں تاکہ حقائق معلوم ہوجائے

(۱)سیدنا شیخ جمال الاولیا کوڑوی علیہ الرحمہ کا نسبت اویسیہ مداریہ سے مستفیض ہونا :حضرت سیدنا خواجہ سید جمال الاولیا ء کوڑا جہان آبادی سلسلۂ عالیہ قادریہ رضویہ کے انتیسویں۲۹؍ امام وشیخ طریقت ہیں۔ آپ جہاں ظاہری نسبتوں سے سرفراز ہیں وہیں آپ باطنی نسبت اویسیہ مداریہ سےبھی مستفیض ہیں۔ تذکرۃ العابدین کے مصنف نےصفحہ ۲۰۷پر تحریر کیا ہے کہ جب سید جمال الاولیاء کوڑا جہان آبادی مکن پور شریف پہونچے تو صاحبزادہ حضرت سید بدیع الدین شاہ مدار نے اپنا مہمان کیا اور اپنے خانوادہ کی اجازت و خلافت سے نوازا۔ اور صاحبِ تذکرہ مشائخ قادریہ برکاتیہ رضویہ نے تحریر فرمایاہےکہ حضرت سیدنا خواجہ سید جمال الاولیا ء کوڑا جہان آبادی نے بلا واسطہ ارواح مبارکہ سیدنا خواجہ بہاؤالدین نقشبند سیدنا غوث الاعظم عبدالقادر جیلانی اور سید بدیع الدین قطب المدار رضی اللہ عنہم اجمعین سے فیض اویسیہ حاصل فرمایا اور بزرگان عصر سے فیض وخرقۂ خلافت چاروں سلاسل کا اخذ فرمایا۔ [تاریخ مشائخ قادریہ برکاتیہ، رضویہ، ص: ۳۱۰]

(۲)حضرت میر سید محمد کالپوی قدس سرہٗ کو بھی سلسلۂ مداریہ کی اجازت وخلافت حاصل تھی :آپ سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ کے تیسویں۳۰؍ امام و شیخ طریقت ہیں۔ [تذکرہ مشائخِ قادریہ رضویہ: ۳۱۵؍۳۱۶؍ ۳۱۸]

(۳) حضرت شاہ فضل اللہ کالپوی قدس سرہٗ کو سلسلۂ مداریہ کی اجازت وخلافت حاصل تھی :آپ سلسلۂ عالیہ قادریہ رضویہ کے بتتیسویں۳۲؍ امام اور شیخ طریقت گزرے ہیں ۔جہاں آپ نے بےشمار علماء ومشائخ کو اجازت وخلافت سے سرفراز فرمایا ہے ان ہی میں سے ایک شخصیت حضرت شاہ برکت اللہ مارہروی کی بھی ہے جنہیں آپ نے سلاسل خمسہ یعنی سلسلۂ قادریہ، سلسلۂ چشتیہ، سلسلۂ نقشبندیہ، سلسلۂ سہروردیہ، سلسلۂ مداریہ کی اجازت وخلافت اور دوسرے اعمال واشغال سے بہرہ ور بنایا ہے۔[اصح التواریخ، شاہ محمد میاں برکاتی مارہروی قدس سرہ، تذکرہ مشائخ قادریہ برکاتیہ رضویہ، ۳۳۳/۳۳۴، عبدالمجتبیٰ رضوی بریلوی]

(۴)صاحب البرکات حضرت مولاناسید شاہ برکت اللہ ابن حضرت شاہ اویس مارہروی رضی اللہ عنہما کو بھی سلسلۂ مداریہ کی اجازت وخلافت حاصل تھی : آپ سلسلۂ عالیہ قادریہ رضویہ کے تینتیسویں /۳۳، امام وشیخ طریقت ہیں۔ سلسلۂ برکاتیہ آپ ہی کی ذات کی طرف منسوب ہے۔آپ کے والد ماجد نے جملہ سلاسل کی اجازت وخلافت مرحمت فرماکر سلاسل خمسہ (۱)قادریہ، (۲)چشتیہ، (۳)نقشبندیہ، (۴)سہروردیہ، (۵)مداریہ میں بیعت لینے کی بھی اجازت مرحمت فرمائی۔ [تذکرہ مشائخ قادریہ برکاتیہ رضویہ، ج: ۳۳۲/۳۳۳/۳۳۵، خاندان برکات، ص: ۱۰]مولانا صوفی محمد اوّل قادری رضوی سنبھلی نے بھی ’’سخنِ رضا مطلب ہائے حدائق بخشش،ص۳۸۳‘‘ میں تحریر فرمایا ہے۔

(۵)حضرت سیدنا شاہ ابوالحسین احمد نوری مارہروی علیہ الرحمہ کو بھی سلسلۂ مداریہ کی اجازت وخلافت حاصل تھی : [تذکرہ مشائخ قادریہ برکاتیہ رضویہ، ص: ۳۸۶]

(۶)حضرت مولانا الشاہ سید حمزہ مارہروی قدس سرہٗ کو سلسلۂ مداریہ کی اجازت وخلافت حاصل تھی:[کاشف الاستار فارسی مصنفہ حضرت شاہ حمزہ مارہروی اردو ترجمہ منبع الانساب ص: ۳۴۶ ]

(۷)سیدالعلماء حضرت مولاناشاہ آلِ مصطفیٰ قدس سرہٗ کو سلسلۂ مداریہ کی اجازت وخلافت حاصل تھی: [مکتوب سید العلماء، ص: ۳]

(۸)احسن العلماء حضرت سید شاہ مصطفیٰ حیدر حسن میاں مارہروی قدس سرہٗ کو بھی سلسلۂ مداریہ کی اجازت وخلافت حاصل تھی :[بیاد حضرت احسن العلماء سید شاہ مصطفٰی حیدر حسن میاں قدس سرہ، اہلسنت کی آواز۔ صفحہ 193/194/خانقاہ برکاتیہ مارہرہ شریف کا ترجمان خصوصی شمارہ ؍اہلسنت کی آواز، ص: ۱۹۵/۱۹۶]

(۹)اعلیٰ حضرت امام احمدرضاخان فاضل بریلوی کو بھی سلسلۂ مداریہ کی اجازت وخلافت حاصل تھی : آپ سلسلۂ عالیہ قادریہ رضویہ کے انتالیسویں ۳۹امام وشیخ طریقت ہیں۔ آپ کو مشائخ طریقت کے تیرہ سلاسل میں اجازت وخلافت حاصل تھی جس میں بارہواں سلسلہ’’سلسلہ بدیعیہ مداریہ‘‘ہے اور تمام سلاسل میں دوسروں کو بھی اجازت وخلافت دینے کے ماذون ومجاز تھے جس کو خود اعلی حضرت فاضل بریلوی نے’’: الاجازۃ المتینہ‘‘میں تحریر فرمایا ہے اور ان سلاسل کی تفصیل درج فرمائی ہے جویوںہے۔ (۱)قادریہ برکاتیہ جدیدہ، (۲)قادریہ آبائیہ قدیمہ (۳)قادریہ اہدایہ (۴)قادریہ رزاقیہ (۵)قادریہ منصوریہ (۶)چشتیہ نظامیہ قدیمہ (۷)چشتیہ محبوبیہ جدیدہ (۸)سہروردیہ واحدیہ (۹)سہروردیہ فضیلیہ (۱۰)نقشبندیہ علائیہ صدیقیہ (۱۱)نقشبندیہ علائیہ علویہ (۱۲)بدیعیہ مداریہ (۱۳)علویہ منامیہ۔ [الاجازۃ المتینہ، ص: ۶۷]اسی طرح مَلِکُ العلماء حضرت علامہ مفتی سید شاہ ظفر الدین بہاری علیہ الرحمہ نے بھی اپنی تصنیف ’’حیات اعلیٰ حضرت ،، جلد۲، ص: ۳۲۰؍۳۳۴‘‘میں سلسلۂ مداریہ کا ذکر کرتے ہوئےامام احمد رضاخان فاضل بریلوی کا مکمل شجرۂ مداریہ تحریر فرمایا ہے۔علاوہ ازیںآپ ہی سے متعلق مولانا عبدالمجتبی رضوی علیہ الرحمہ ’’تذکرہ مشائخ قادریہ برکاتیہ رضویہ ،، ص: ۳۹۹‘‘ میں تحریر فرمایاہے۔

(۱۰)حضرت مفتی اعظم ہند کو بھی سلسلۂ مداریہ کی اجازت وخلافت حاصل تھی:آپ سلسلۂ عالیہ قادریہ رضویہ کے اکتالیسویں ؍۴۱امام وشیخ طریقت ہیں۔ آپ کو بیعت کا شرف حضرت شاہ ابوالحسین احمد نوری مارہروی قدس سرہٗ سے تھا اور چھہ؍۶ سال کی عمر شریف میں آپ کے شیخ طریقت نے بیعت کرنے کے بعد جملہ سلاسل مثلاً قادریہ، چشتیہ، نقشبندیہ، سہروردیہ، مداریہ وغیرہ کی اجازت سے بھی نوازا [تذکرہ مشائخ قادریہ برکاتیہ رضویہ، ۵۰۳؍تا؍۵۲۶]

(۱۱)حضرت مولاناعبدالرحمٰن خان نقشبندی کو بھی سلسلۂ مداریہ میں اجازت وخلافت حاصل تھی: [مشائخ نقشبندیہ، ص: ۷۴]

(۱۲)حضرت سیدناشاہ ذکی الدین سجادہ نشین مانکپوری قدس سرہٗ کو بھی سلسلۂ مداریہ کی اجازت وخلافت حاصل تھی : [از شجرات طیبات، ص: ۳۳ ]

(۱۳)حضرت سیدنا شاہ محمد نعیم عطا قدس سرہٗ سجادہ نشین خانقاہ سلون شریف ضلع رائے بریلی کو بھی سلسلۂ مداریہ کی اجازت و خلافت حاصل تھی: [شجرات طیبات ص ۳۳]
مذکورہ بالا علمائے کرام کے ارشادات ا ور اہلسنت کی کتبِ معتمدہ کی شہادتوں نے قطعی طور پر یہ واضح کردیا کہ ’’سلسلۂ عالیہ مداریہ‘‘ بالشان جاری تھا اور جاری ہےاس کو سوخت کہنا در اصل مارہرہ مطہرہ کالپی بریلی اور بلگرام کے شیوخ ِطریقت پر انگلی اٹھانا ہوا۔ (جوابِ ثانی)جب سلسلہ جاری و ساری ہے تو مرید ہونا بھی جائز و درست ہے ،جو یہ کہے کہ مرید ہونا جائز نہیں وہ علم سے ناآشنا ہے ۔حضرت مفتی شہاب الدین صاحب صدر مفتی جامع اشرف کچھوچھہ مقدسہ تحریر فرماتے ہیں : سلسلۂ مداریہ جاری ہے۔ جلیل القدر علماء ومشائخ سلسلۂ مداریہ سے وابستہ ہیں _ سلسلۂ مداریہ کو سوخت قرار دینا حق سے بعید ہے۔

لہذا مطبوعہ سبع سنابل کی یہ عبارت: لیکن شاہ مدار کے وہ چند مرید بغیر رخصت بغیر اجازت اور بغیر خلافت کے مرید کرتے تھے اور سلسلہ بڑھاتے تھے اور اپنا خلیفہ بناتے، یہی ان کی گمراہی ہے ‘‘باطل ہے اس لیے کہ اس عبارت کو تسلیم کر لینے کی تقدیر پر ان جلیل القدر علماء ومشائخ کو گمراہ قرار دینا لازم آئے گا جو سلسلۂ مداریہ سے وابستہ ہیں۔ خود اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی اور مشائخین مارہرہ گمراہ کن فعل کے معاون قرار پائیں گے۔ اس لئے کہ ان حضرات نے سلسلۂ مداریہ کی اجازت وخلافت حاصل کرکے سید میر عبدالواحد بلگرامی کے مفروضہ قول کے مطابق ایک گمراہ کام میں سلسلۂ مداریہ کے لوگوں کو مدد پہنچایا

اسی طرح مطبوعہ سبع سنابل کی یہ عبارت : شاہ مدار نے فرمایا میں نے گنتی کے چند آدمی مرید کئے ہیں اور آج کی تاریخ سے کسی کو مرید نہیں کروں گا۔ رہی خلافت وہ میں نے نہ کسی کو دی ہے اور اب نہ دوں گا،، باطل ہے اس لیے کہ بہت سی معتبر ومستند کتابوں سے ثابت ہے کہ حضرت شاہ مدار نے بہت سے علماء ومشائخ کو اپنے سلسلہ کی اجازت وخلافت دی ہے۔ اور ان علماء ومشائخ نے دوسرے علماء ومشائخ کو سلسلۂ مداریہ کی اجازت وخلافت دی ہے۔ حضرت شاہ بدیع الدین مدار کی ملاقات شیخ سراج الدین سوختہ سے کالپی شریف میں ہوئی تھی۔ تمام تاریخ وسیرت کی کتابوں میں یہ بات درج ہے کہ حضرت شاہ بدیع الدین مدار جونپور کالپی شریف سے تشریف لائے تھے اور جونپور میں ایک مدت تک قیام کیا تھا۔ جونپور میں جلیل القدر علماء ومشائخ نے حضرت شاہ بدیع الدین مدار سے اجازت وخلافت حاصل کیا اور ان سے مرید ہوئے اور ان کے انتقال کے بعد جلیل القدر علماء ومشائخ سلسلۂ مداریہ سے وابستہ ہوئے۔ بہت سے علماء ومشائخ نے دیگر سلاسل کے ساتھ سلسلۂ مداریہ کی اجازت وخلافت حاصل کی۔

اگر شاہ بدیع الدین مدار کا سلسلہ شیخ سراج الدین سوختہ کالپی شریف میں سوخت کردیئے ہوتے اور شاہ بدیع الدین مدار کسی کو اجازت وخلافت نہ دینے کا عہد کرلئے ہوتے تو جونپور میں مرید کرنا اور وہاں کے علماء ومشائخ کو اجازت وخلافت دینا ثابت نہیں ہوتا۔ لہذا یہ قول کسی بددیانت اور فتنہ پرور شخص نے حضرت شاہ بدیع الدین مدار سے منسوب کردیا کہ : آج کی تاریخ سے کسی کو مرید نہیں کروں گا۔ رہی خلافت وہ میں نے نہ کسی کو دی ہے اور نہ اب دوں گا،، نیز شاہ بدیع الدین مدار نے جونپور میں خانقاہ بنائی۔ لوگوں کو سلوک کی تعلیم دی۔ جب سبع سنابل کے مطبوعہ نسخہ کے مطابق جونپور میں حضرت شاہ بدیع الدین مدار کا کوئی مرید نہیں تھا تو اپنی خانقاہ میں سلوک کی تعلیم کس کو دیتے تھے؟ جب حضرت شاہ بدیع الدین مدار کو مرید نہیں کرنا تھا اور نہ ہی کسی کو اجازت وخلافت دینا تھا تو کیا جونپور تفریح کے لیے تشریف لائے تھے؟ جب سبع سنابل کے مطبوعہ نسخہ کے مطابق حضرت شاہ بدیع الدین مدار نے کسی کو خلافت نہ دینے کا خط کثرت سے چاروں طرف روانہ کیا تو جونپور کے جلیل القدر علماء ومشائخ کو وہ خط کیونکر نہیں ملا؟ جب شاہ مدار کالپی شریف سے جونپور تشریف لائے تو کسی کو خلافت نہ دینے کا اعلان جونپور میں کیوں نہیں کیا؟ اگر خلافت نہ دینے کا اعلان کیا تو جونپور کے علماء ومشائخ سلسلۂ مداریہ سے کیوں وابستہ ہوئے؟ کیا جونپور کی مقتدر ہستیاں اس قدر جاہل تھیںکہ علم و فضل زہدوتقوی کے باوجود ایک سوخت سلسلہ سے وابستہ ہوگئیں؟ نیز حضرت شاہ بدیع الدین مدار نے کسی کو اجازت وخلافت نہ دینے کا خط لکھنے کے باوجود جونپور آکر کیونکر وہاں کے علماء کو اجازت وخلافت دیا؟ کیا حضرت شاہ بدیع الدین مدار خود گمراہ ہوگئے تھے؟ (نعوذبااللہ من ذلک)

نیز جب حضرت شاہ بدیع الدین مدار نے سبع سنابل کے مطبوعہ نسخہ کے مطابق کسی کو اجازت وخلافت نہیں دی تھی تو ان کا سلسلہ بھی قائم نہیں ہوا تھا۔ جب سلسلہ مداریہ کا کوئی وجود ہی نہیں تھا تو اس کو سوخت کرنا کیونکر متصور ہو سکتا ہے؟ کیا ایک معدوم چیز کو کوئی سوخت کرسکتاہے؟ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ سلسلۂ مداریہ جاری ہے۔ کسی بددیانت، تعصب پرست اور فتنہ پرور شخص نے اس سلسلہ کے سوخت ہونے کی روایت مشہور کردی ہے۔ سلسلۂ مداریہ کے سوخت والی عبارت کو کسی نے گڑھ کر سبع سنابل میں الحاق کردیاہے۔ سبع سنابل کے اصل نسخہ میں اس الحاقی عبارت کا کوئی وجود نہیں ہے۔ سلسلۂ مداریہ کے سوخت کا تفصیلی واقعہ جس طرح سبع سنابل کے مطبوعہ نسخہ میں ہے اس کی تائید کسی معتبر کتاب سے نہیں ہوتی ہے۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے اخبارالاخیار میں شیخ عبدالحق چشتی نے مراۃالاسرار میں اور دیگر معتبر ومستند علمائے کرام نے اپنی کتابوں میں شیخ سراج الدین سوختہ اور شاہ مدار کے واقعہ کو لکھا ہے لیکن کسی نے بھی سلسلۂ مداریہ کے سوخت ہونے کو بیان نہیں کیا ہے۔ بعض علمائے کرام نے تو شیخ سراج الدین سوختہ اور شاہ مدار کے درمیان کشیدگی کے واقعہ کو غیر معتبر قرار دیا ہے اور یہ لکھا ہے کہ شیخ بدیع الدین مدار شیخ سراج الدین سوختہ کی دعاء سے جونپور آئے تھے۔ یہی بات حضرت میر عبدالواحد بلگرامی نے سبع سنابل میں لکھا ہے۔

احمد علی چشتی (جن کا انتقال ۱۲۸۱میں ہوا) اپنی کتاب قصر عارفاں جلداول صفحہ ١٦٥ میں لکھا ہے : حضرت سید عبدالواحد بلگرامی قدس سرہٗ السامی اپنی کتاب سبع سنابل میں لکھتے ہیں کہ آپ حافظ سراج الدین کی دعا سے جونپور میں آئے تھے، قصر عارفاں کی اس عبارت سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ سلسلۂ مداریہ کے سوخت والی عبارت سبع سنابل میں الحاق کردی گئی ہے۔الحمدللہ!دلائل قاہرہ، کتب معتمدہ اور اقوال علمائے دین و اولیائے کاملین سےیہ ثابت و واضح گیاکہ بے شک ’’ سلسلۂ عالیہ مداریہ‘‘ بالشان جاری وساری ہے نیز اس میں مرید ہونا بھی جائز و درست ہے ۔ اگر سلسلۂ مداریہ کی عظمتوںکو سمجھناہے تو: بحرزخار، ثواقبِ آثار، تحفتہ الابرار، تاریخِ سلاطین شرقیہ، جواہر خمسہ، مسالک السالکین، ملفوظاتِ حمیدالدین ناگوری، ملفوظاتِ شیخ حسین بلخی، ملفوظاتِ شاہ مینا، سمات الاخیار، گلزارِ ابرار، سلسلۂ مداریہ، گوہرِ آبدار، تحفتہ السالکین، تذکرہ صوفیائےمیوات، تاریخ تارہ گڑھ، تذکرۃ الکرام، مداراعظم، مآثرالکرام، طبقاتِ شاہجہانی، مراءۃِمداری، تجلیاتِ مداریت، سیرت الصحابہ والتابعین، ضربِ یداللّٰہی، تازیانۂ مداریہ، نورِوحدت، اخبارالاخیار، تذکرہ مشائخِ عظام، تذکرہ قادریہ برکاتیہ رضویہ، حیاتِ اعلیٰ حضرت حصہ سوئم، سوانح اعلیٰحضرت، انوار سلسلئہ مداریہ ،سعی آخر، تذکرہ اکابر علماء اہلسنت، تذکرہ آبادانیہ، مناقب العارفین، مردانِ خدا، سراج الفقراء تذکرۃالفقراء، سراج العوارف، النور والبہاء، تذکرہ علماء بستی، تاریخ مشائخ قادریہ، تذکرہ مشائخ بنارس، تذکرہ صوفیاء بہار، کائناتِ تصوف، الاجازۃالمتینہ، کلیاتِ امدادیہ، مقالاتِ طریقت، تحفۂ چشتیہ، نزہتہ الخواطر، افضالِ رحمانی وغیرہم کتب کا مطالعہ ضرورکریں۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَمﷺ کتبـــــــــــــــــــــــــــــــــــ سید مشرف عقیل غفرلہ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــہ
ہاشمی دارلافتاوالقضا،موہنی شریف ،تھانہ: نانپور،ضلع :سیتامڑھی ،بہار(الہند)
۲۴/رجب المرجب ۱۴۴۲ ؁ ہجری مطابق۰۹/مارچ ۲۰۲۱ ؁ عیسوی بروزِ منگل

Leave a Comment

Related Post

Top Categories