مدہوش رہا ہوں کہ میں ہوشیار رہا ہوں

Allama Niyaz Makanpuri

مدہوش رہا ہوں کہ میں ہوشیار رہا ہوں
تقدیر کے ہاتھوں میں گرفتار رہا ہوں

اول ہی سے ناکردہ گناہ ہی کا ہوں مجرم
بے وجہ سزاؤں کا سزاوار رہا ہوں

جب تک ہے چلی حوصلۂ ضبط الم کی
سو رنج اٹھا کے بھی سبک بار رہا ہوں

ڈھائی ہے جفا دل پہ وفاؤں کے جنوں میں
آپ اپنے لیے در پئے آزار رہا ہوں

اللہ محافظ تیرا اے شدت آلام
اب میں بھی غم و درد سے جی ہار رہا ہوں

ساغر میرے ہاتھوں میں پہنچتا بھی تو کیسے
ہر دور میں مست مئے پندار رہا ہوں

بس اتنی خطا ہے کہ ہر اک دور چمن میں
بیگانۂ تفریق گل و خوار رہا ہوں

آنکھوں میں بٹھایا ہے نیاز ایک جہاں کو
ہر چند کے خود اپنے سے بیزار رہا ہوں

Tagged:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *