مدہوش رہا ہوں کہ میں ہوشیار رہا ہوں
تقدیر کے ہاتھوں میں گرفتار رہا ہوں
اول ہی سے ناکردہ گناہ ہی کا ہوں مجرم
بے وجہ سزاؤں کا سزاوار رہا ہوں
جب تک ہے چلی حوصلۂ ضبط الم کی
سو رنج اٹھا کے بھی سبک بار رہا ہوں
ڈھائی ہے جفا دل پہ وفاؤں کے جنوں میں
آپ اپنے لیے در پئے آزار رہا ہوں
اللہ محافظ تیرا اے شدت آلام
اب میں بھی غم و درد سے جی ہار رہا ہوں
ساغر میرے ہاتھوں میں پہنچتا بھی تو کیسے
ہر دور میں مست مئے پندار رہا ہوں
بس اتنی خطا ہے کہ ہر اک دور چمن میں
بیگانۂ تفریق گل و خوار رہا ہوں
آنکھوں میں بٹھایا ہے نیاز ایک جہاں کو
ہر چند کے خود اپنے سے بیزار رہا ہوں



