مدینہ مدینہ مدینہ مدینہ مدینہ مدینہ مدینہ مدینہ مدینہ مدینہ مدینہ
ہے جنت کا بس ایک زینہ مدینہ مدینہ مدینہ مدینہ مدینہ مدینہ
چمکتے ستارے یہ کہنے لگے ہیں زمیں کے نظارے یہ کہنے لگے ہیں
چہک کر یہ چڑیوں نے دی ہیں صدائیں ہر اک غم کے مارے یہ کہنے لگے ہیں
نبی جب ہیں آئے مدینے میں لوگوں بنا رشک جنت مدینہ
ہر اک سے تڑپ کر میں کہتا رہا ہوں جدائی میں طیبہ کی سہتا رہا ہوں
چلے جا رہے ہیں سبھی سوئے طیبہ جدا میں مدینے سے رہتا رہا ہوں
ہر اک جا رہا ہے مگر میں نہ پہنچا جب آیا ہے حج کا مہینہ
سروں پر ہو سایہ جناب علی کا کرم ہم پہ ہو میرے زندہ ولی کا
ملے غوث و خواجہ کا صدقہ ہمیں بھی صحابہ کا فیض اور حسین جلی کا
سر حشر پانی جو آئے ڈبانے ملے پنجتن کا سفینہ
الہی دکھا دے ہمیں بھی وہ دھرتی شفا ہی شفا جس زمیں کی ہے مٹی
جہاں کوئی گورا ہے اور ہے نہ کالا جہاں ہے برابر امیری غریبی
ہمیں بھی کھلا دے وہاں کی کھجوریں ہمیں آب زمزم ہے پینا
ہے درد و علم میں یہ امت تمہاری انہیں سب پریشان کرتے ہیں ناری
سہارا انہیں دو کرم ان پہ کردو کرو اپنے گلشن کی خود آبیاری
تیرے امتی ایک ہو جائیں سارے نہ دل میں رہے کوئی کینہ
مسلماں کو بس آپ کا آسرہ ہے زمانہ مسلماں کے پیچھے پڑا ہے
کرم کیجیے تاجدار مدینہ شجر کی یہی آپ سے التجا ہے
مصیبت ٹلے اور حالات بدلیں ہوا اپنا مشکل میں جینا



