السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل میں میں کہ زید مدینہ شریف کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتا ہے اور صرف سنتوں کو ادا کرتا ہے اور فرائض کو ادا نہیں کرتا ہے اور ایسا کرنے سے جب اس سے پوچھاگیا تو وہ کہتا ہے کہ جب آپ نماز پڑھاتے ہیں تو کیا ہم آپکو کچھ کہتے ہیں تو آپ بھی ہم سے کچھ نہ کہیں ایسے شخص کیلئے کیا شریعت کیا حکم لاگو کرتی ہے قرآن اور احادیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں
العارض: محمد جابر حنفی
پوٹا کلاں پیلی بھیت
الجواب و باللہ التوفیق وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
اللہ تعالی سورۂ بقرہ آیت ١٤٣ میں ارشاد فرماتا ہےقد نری تقلب وجھک فی السماء فلنولینک قبلۃ ترضاھا فول وجھک شطر المسجد الحرام. و حیث ما کنتم فولوا وجوھکم شطرہ.
آیت مبارکہ میں اللہ تعالی نے مسجد حرام یعنی قبلہ کی جانب رخ کرنے کا حکم دیا ہے۔استقبال قبلہ صحت نماز کے لئیے شرط ہے،استقبال قبلہ پر قادر ہونے کے باوجود کوئی بندہ کسی اور طرف رخ کرکے نماز ادا کرے تو اس کی نماز درست نہیں ہوگی۔
فتاوی ہندیہ جلد اول میں شرائط نماز شمار کراتے ہوئے لکھتے ہیںو ھی عندنا سبعة الطھارۃ من الاحداث والطھارۃ من الانجاس و ستر العورۃ و استقبال القبلة والوقت والنیة والتحریمة.
(فتاوی عالمگیری،ج:1،ص:64،کتاب الصلاۃ،باب شروط الصلاۃ،دار الکتب العلمیہ بیروت)
اور کتاب الفقہ جلد اول کتاب الصلوۃ میں مذکور ہےوقد أجمع المسلمون علی ان استقبال القبلة شرط من شروط صحة الصلاۃ.
(کتاب الفقہ علی المذاھب الاربعۃ،ج:1،ص:173،کتاب الصلاۃ،دلیل اشتراط استقبال القبلہ،دار الفکر بیروت)
اوربحر الرائق جلد دوم میں استقبال قبلہ کے مسائل کے تحت تحریر ہےو قید بترک القیام. لانه لو ترک استقبال وجهه الی القبلة وھو قادر علیه،لا یجزیه فی قولھم جمیعا. فعلیھم ان یستقبلوا بوجوھھم القبلة کلما دارت السفینة یحول وجهه إلیھا کذا فی الإستیجابی.
(البحر الرائق،ج:2،ص:207،کتاب الصلاۃ،باب صلاۃ المریض،دار الکتب العلمیہ بیروت)
صورت مسئولہ میں زید اگر استقبال قبلہ کو چھوڑ کر مدینہ شریف کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتا ہے تو اسکی نماز درست نہیں ہوگیا،اور زید صرف سنت نماز پڑھتا ہے اور فرض نماز نہیں پڑھتا تو سخت گنہگار ہے اور مستحق نار ہے فرض نماز پہلے ہے سنن و نوافل بعد میں،قیامت کے دن حقوق اللہ میں پہلا سوال فرض نماز کا ہوگا اس تعلق سے احادیث کی کتب میں کثرت سے روایات موجود ہیں
چنانچہ سنن ابن ماجہ جلد دوم میں ہےأخبرھم انی سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیه و سلم یقول إن أول ما یحاسب به العبد المسلم یوم القیامة الصلوۃ المکتوبة
(سنن ابن ماجہ،ج:2،ص:197،کتاب اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا،باب ماجاء فی اول ما یحاسب بہ العبد الصلاۃ، رقم:1425،دار الکتب العلمیہ بیروت)
اور ترمذی شریف کتاب الصلوۃ باب ما جاء ان اول ما یحاسب بہ العبد یوم القیامۃ الصلوۃ کے تحت روایت ہےعن ابی ھریرۃ رضی اللہ تعالی عنه قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیه و سلم یقول إن أول ما یحاسب بہ العبد یوم القیامة من عمله صلاته فان صلحت فقد أفلح و أنجح و ان فسدت فقد خاب و خسر فان انتقص من فریضته شیء قال الرب انظروا ھل لعبدی من تطوع ؟ فیکمل بھا ما انتقص من الفریضة ثم یکون سائر عمله علی ذلک.
(سنن الترمذی،ص:126،دار الکتب العلمیہ بیروت)
مذکورہ روایت سے معلوم ہوا کہ سنن و نوافل فرض کی کمی کو پورا کرنے کے لئے ہیں اور جو شخص فرض ہی نہ پڑھتا ہو تو وہ سنن و نوافل سے کس کمی کو پورا کرے گا۔زید تارک فرض ہونے کی وجہ سے مرتکب گناہ کبیرہ ہے اور اگر معاذ اللہ فرض نماز کی فرضیت کا منکر ہے تو کافر ہے،اور زید کے استقبال قبلہ کو چھوڑنے کی وجہ پوچھنے پر یہ کہنا کہ ہم آپ سے کچھ نہیں کہتے آپ بھی ہم سے کچھ نہ کہو یہ جہالت ہے اگر پوچھنے والے سے کوئی اختلاف ہے تو اس کی جگہ اپنے پسندیدہ عالم دین سے اپنے اس فعل کے تعلق سے معلومات کرکے اپنی اصلاح کرے۔واللہ اعلم بالصواب۔
كتبـه
احقر محمد آصف خان قمر مداری غفر لہ
خادم التدریس مدرسہ مدار العلوم گووندہ پور بریلی یوپی
الجواب صحیح:
خوشنود خان مداری عفی عنہ
صدر المدرسین مدرسۂ مذکورہ و ناظم اعلیٰ دار الافتا مداریہ






